Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: It Is Disliked To Swear By One's Forefathers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3251.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے کسی کو سنا کہ وہ کعبہ کی قسم کھا رہا تھا تو انہوں نے اس سے کہا : بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ” جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا ۔ “
تشریح:
1۔غیر اللہ کی قسم کھانا۔خواہ وہ کعبہ کی ہو یا فرشتے یا نبیاء یا اولیاء صالحین یا آبائواجداد وغیر کی۔اسے گویا اللہ کے ہم پلہ ٹھرانا ہے۔ یا اس کی سی صفات سے موصوف سمجھنا ہے۔جو کہ واضح شرک ہے۔جس سے ایسا ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کی تجدید کرلے۔اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔جیسے کہ (حدیث 3247)میں گزرا ہے۔2۔خیال رہے کہ قرآن مجید کی قسم کھانا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی اٹھا لے تو مباح اور جائز ہے۔اس لئے کہ قرآن مجید اللہ ذو الجلال کا کلا م اور اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کی قسم کھانا ثابت اور صحیح ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے کسی کو سنا کہ وہ کعبہ کی قسم کھا رہا تھا تو انہوں نے اس سے کہا : بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ” جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا ۔ “
حدیث حاشیہ:
1۔غیر اللہ کی قسم کھانا۔خواہ وہ کعبہ کی ہو یا فرشتے یا نبیاء یا اولیاء صالحین یا آبائواجداد وغیر کی۔اسے گویا اللہ کے ہم پلہ ٹھرانا ہے۔ یا اس کی سی صفات سے موصوف سمجھنا ہے۔جو کہ واضح شرک ہے۔جس سے ایسا ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کی تجدید کرلے۔اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔جیسے کہ (حدیث 3247)میں گزرا ہے۔2۔خیال رہے کہ قرآن مجید کی قسم کھانا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی اٹھا لے تو مباح اور جائز ہے۔اس لئے کہ قرآن مجید اللہ ذو الجلال کا کلا م اور اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کی قسم کھانا ثابت اور صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر ؓ نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا “ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA):
Sa'id ibn Ubaydah said: Ibn 'Umar (RA) heard a man swearing: No, I swear by the Ka’bah. Ibn 'Umar (RA) said to him: I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: He who swears by anyone but Allah is polytheist.