مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3715.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو میٹھا اور شہد بہت پسند تھا اور مذکورہ بالا قصے کا کچھ حصہ بیان کیا (اور کہا کہ) رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت گراں محسوس ہوتی تھی کہ آپ ﷺ سے کوئی ناگوار بو آئے۔ اس حدیث میں ہے کہ سیدہ سودہ ؓ نے کہا: بلکہ آپ ﷺ نے مغافیر (جنڈی کا رس) پیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ میں نے تو شہد پیا ہے جو مجھے حفصہ نے پلایا ہے۔“ تو میں نے کہا: (شاید) شہد کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ (عرفط) ایک بوٹی کا نام ہے جس پر شہد کی مکھی بیٹھتی ہے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ «مغافير» ایک طرح کی گوند سی ہوتی ہے۔ اور «جرست» کے معنی ہیں ”اس نے چوسا ہو گا اور «عرفط» ایک بوٹی ہوتی ہے جس پر شہد کی مکھی بیٹھتی ہے۔
تشریح:
1۔ شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم جامع نعمتوں میں سے ہے۔ اور بے شمار بیماریون کا تریاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ)(النحل۔69) اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ 2۔ کسی بھی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا نبی کریمﷺکے لئے بھی جائز نہ تھا۔ 3۔ مذکورہ بالا اور اس قسم کے دیگر واقعات میں ازواج نبیﷺکی آپس میں کشاکش اس بات کی تصریح ہے کہ وہ اس دنیا کی مخلوق تھیں۔ معاشرتی زندگی کے حوالے سے ان کے جزبات فطری تھے۔ وہ معصوم عن الخطا نہ تھیں۔ مگر اللہ عزوجل نے انہیں نبی کریمﷺ کی دل ب بستگی اور اشاعت دین کےلئے منتخب فرمایا لیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ پُرزور تمنا اور انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ جس طرح بھی بن پائے وہ محمد رسول اللہﷺ کی الفت ومحبت اور التفات کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرلے۔ اور یہ عین ایمان بھی ہے، اس صورت حال میں اس انداز کے معمولی جھول نظرانداز کردینے کے لائق تھے۔ اور ہیں۔ جہاں ضروری سمجھا گیا، تنبیہ بھی کی گئی ان ازواج مطہرات کا جو قلبی وقالبی ربط وضبط رسول اللہﷺکے ساتھ تھا۔اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ) (الأحزاب۔32) اے نبیﷺ! کی بیویوں تم عام عورتوں کیطرح نہیں ہو۔ اور نبی کریمﷺ سے فرمایا۔ (لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ) (الأحزاب:52) اے نبی ﷺ!آپ کے لئے ان بیویوں کے بعد اور کوئی عورت حلال نہیں۔ اور نہ آپﷺ ان کے بدلے کوئی او رلا سکتے ہیں۔ خواہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ ہاں لونڈیاں جائز ہیں۔ انہی فضائل کی بنا پر یہ امت کی مایئں قرار دی گیئں ہیں۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنھن و أرضاھن)
٭الأطعمة کی تعریف :’’اطعمة‘‘ طعام کی جمع ہے ،قاموس میں اس کے معنی کیے گئے ہیں :’’اَلْبُرُّ وَمَا يُو كَلُ‘‘ گندم اور جو چیز کھائی جاتی ہے اسے ’’طعام‘‘ کہا جاتا ہے بعض علمائے لغت کے نزدیک ’’طعام ‘‘ سے مراد صرف کھنانا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات پینے والی چیز پر بھی ’’طعام‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي) ’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس پانی پی لیا وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اس کا پانی نہ چکھا ‘تو یقیناً وہ میرا ہے ۔‘‘(البقرہ:249)
اسی طرح ارشاد نبوی ہے [زَمْزَمُ طَعَأمُ طُعْمٍ وَ شِفَاءُ سُقْمٍ]
’’زمزم کھانے والے کا کھانا ہے اور بیمار کے لیے شفا ہے ۔‘‘(مجمع الزوائد:3/286 والمعجم الکبیر للطبرانی:11/98)
٭أشربة کی لغوی تعریف :’’ أشربة ‘‘ شراب کی جمع ہے ‘یعنی ہر بہنے والی چیز جسے پیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے ،ہمارے ہاں اُسے مشروب کہا جاتا ہے۔
٭کھانے پینے کی مشروعیت :اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں بطور خوراک پیدا کی ہیں ۔پھر مزید رحمت فرماتے ہوئے ہر اس کھانے ‘پینے کی چیز کو حرام قرار دیا جو انسانی صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ تھی اور ہر وہ چیز جو مفید تھی اسے حلال رکھا‘ خود وہ دانے ہوں ‘پھل ہوں یا جانوروں کی شکل میں ہوں،لہذا رشاد ربانی ہے () ’’اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ اور پیو۔‘‘(البقرہ:249)
کھانے اور پینے کا بنیادی مقصد انسانی بقا ہے تا کہ انسان اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ہر دم تیار ہو ۔ اس کی صحت اس کا بھر پور ساتھ دے تا کہ وہ اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے اس لیے صرف حلال اور مفید چیزیں کھانے کی پابندی عائد کر دی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا)
’’اے لوگو!تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں۔‘‘(البقرہ:168)
رحمت دو عالم ﷺ نے امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
[ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالبَسُوا وَتَصَدَّقُوا، فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِيلَةٍ...] ’’کھاؤ پیو اور صدقہ خیرات کرو‘بغیر اسراف و تکبر و غرور کیے لباس پہنو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔‘‘(مسند احمد:2/181‘182 نیز امام بخاری نے بھی اسے کتاب اللباس کے شروع میں معلقاً بیان کیا ہے)
٭کھانے اور پینے کے چند نبوی آداب: کھانے اور پینے کا بنیادی قانون یہ ہے کہ وہ چیز حلال اور پاکیزہ ہو ، ارشاد نبوی ہے:[ كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ.](صحيح مسلم، الأشربة ،باب بيان ان كل مسكر خمر وان كل خمر حرام ، حديث:2003)’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘
٭جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے مثلاً مردہ جانور کا گوشت کھانا ‘خنزیر‘ ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘قبروں اور بتوں کی نذر کیا جانے والا کھانا اور جانور ‘ہر کچلی اور پنجے سے شکار کرنے والا جانور وغیرہ۔
٭کھانے اور پینے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تقویت ارو بھوک مٹانا ہو تو یہ باعث اجر بن جاتا ہے ۔
٭کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ اور فارغ ہو کر االحمداللہ یا دیگر مسنون دعائیں پڑھنا مستحب ہے ۔
٭کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور بیٹھ کر کھانا افضل و بہتر ہے۔
٭کھانے میں عیب نکالنا اور باتیں بنانا غلط ہے ‘ہاں اگر طبیعت نہ مانے تو نہ کھائے۔
٭کھانا دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ،کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔
٭اگر کھانے کے دوران میں لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔
٭کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے۔
٭اگر چند افراد مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔
٭کھانے کو ٹھنڈا کر نے کے لیے پھونکیں مارنا درست نہیں۔
٭ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کھانا درست نہیں۔
٭ملازموں اور خادموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا افضل ہے ‘ورنہ انہیں کھانے میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے۔
٭کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاپ لینا سنت ہے ، البتہ دھونا بھی درست ہے ۔
٭دعوت کرنے والے کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
٭جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا ان کا دودھ پینا بھی درست ہے۔
٭تمباکو ‘سگریٹ ‘افیون‘ اور ہیرون وغیرہ سخت حرام ہیں-
٭ایسا جوس جس میں جوش اور نشہ پیدا ہو چکا اسے پینا حرام ہے۔
٭بوقت ضرورت کھڑے ہو کر پینا درست ہے۔
٭مشروب کو تین سانسوں میں پینا سنت ہے ‘ہر بار منہ برتن سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے
٭اگر برتن میں کوئی چیز نظر آئے تو اسے ہاتھ سے یا مشروب بہا کر نکالنا چاہیے ‘پھونک مارنا ٹھیک نہیں۔
٭کھانا یا مشروب پیش کرے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔
٭مشروب پیش کرنے والا سب کے آخر میں خود نوش کرے۔
تمہید باب
امام ابوداود کتاب الاشربہ کے ابتداء میں باب الخمر مماهى میں حدیث نمبر 3676 لائے ہیں۔جس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا گیا۔کہ شہد سے بھی شراب تیار کیجاتی ہے۔اس سے اگلے باب میں حدیث نمبر 3682۔اور بعد میں حدیث نمبر 3684 میں بتایا گیا ہے۔کہ'' بتع''وہ شراب ہے جو شہد سے تیار کیجاتی تھی۔آپﷺ نے داضح فرمایا کہ چاہے کسی چیز سے بنی ہو۔ ہرنشہ آوار مشروب حرام ہے۔موجودہ باب سے پہلے حلال نبیذ کے بارے میں احادیث لائی گئی ہیں۔اور اس باب میں شہد کو بطور مشروب استعمال کرنے اور شہد سے بنے ہوئے مشروب کی حلت بیان کی گئی ہے۔اس سے مزید واضح ہوجاتا ہے کہ حرمت کا اصل سبب مشروب کا نشہ آور ہونا ہے۔اگر نشہ آور نہ ہوں تو تمام اشیاء سے بنے ہوئے مشروب حلال ہیں۔جن سے خمر بنائی جاتی ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو میٹھا اور شہد بہت پسند تھا اور مذکورہ بالا قصے کا کچھ حصہ بیان کیا (اور کہا کہ) رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت گراں محسوس ہوتی تھی کہ آپ ﷺ سے کوئی ناگوار بو آئے۔ اس حدیث میں ہے کہ سیدہ سودہ ؓ نے کہا: بلکہ آپ ﷺ نے مغافیر (جنڈی کا رس) پیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ میں نے تو شہد پیا ہے جو مجھے حفصہ نے پلایا ہے۔“ تو میں نے کہا: (شاید) شہد کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ (عرفط) ایک بوٹی کا نام ہے جس پر شہد کی مکھی بیٹھتی ہے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ «مغافير» ایک طرح کی گوند سی ہوتی ہے۔ اور «جرست» کے معنی ہیں ”اس نے چوسا ہو گا اور «عرفط» ایک بوٹی ہوتی ہے جس پر شہد کی مکھی بیٹھتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم جامع نعمتوں میں سے ہے۔ اور بے شمار بیماریون کا تریاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ)(النحل۔69) اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ 2۔ کسی بھی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا نبی کریمﷺکے لئے بھی جائز نہ تھا۔ 3۔ مذکورہ بالا اور اس قسم کے دیگر واقعات میں ازواج نبیﷺکی آپس میں کشاکش اس بات کی تصریح ہے کہ وہ اس دنیا کی مخلوق تھیں۔ معاشرتی زندگی کے حوالے سے ان کے جزبات فطری تھے۔ وہ معصوم عن الخطا نہ تھیں۔ مگر اللہ عزوجل نے انہیں نبی کریمﷺ کی دل ب بستگی اور اشاعت دین کےلئے منتخب فرمایا لیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کی یہ پُرزور تمنا اور انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ جس طرح بھی بن پائے وہ محمد رسول اللہﷺ کی الفت ومحبت اور التفات کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرلے۔ اور یہ عین ایمان بھی ہے، اس صورت حال میں اس انداز کے معمولی جھول نظرانداز کردینے کے لائق تھے۔ اور ہیں۔ جہاں ضروری سمجھا گیا، تنبیہ بھی کی گئی ان ازواج مطہرات کا جو قلبی وقالبی ربط وضبط رسول اللہﷺکے ساتھ تھا۔اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ) (الأحزاب۔32) اے نبیﷺ! کی بیویوں تم عام عورتوں کیطرح نہیں ہو۔ اور نبی کریمﷺ سے فرمایا۔ (لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ) (الأحزاب:52) اے نبی ﷺ!آپ کے لئے ان بیویوں کے بعد اور کوئی عورت حلال نہیں۔ اور نہ آپﷺ ان کے بدلے کوئی او رلا سکتے ہیں۔ خواہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ ہاں لونڈیاں جائز ہیں۔ انہی فضائل کی بنا پر یہ امت کی مایئں قرار دی گیئں ہیں۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنھن و أرضاھن)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میٹھی چیزیں اور شہد پسند کرتے تھے، اور پھر انہوں نے اسی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بہت ناگوار لگتا کہ آپ سے کسی قسم کی بو محسوس کی جائے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ سودہ۱؎ نے کہا: بلکہ آپ نے مغافیر کھائی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ میں نے شہد پیا ہے، جسے حفصہ نے مجھے پلایا ہے۔“ تو میں نے کہا: شاید اس کی مکھی نے عرفط۲؎ چاٹا ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مغافیر: مقلہ ہے اور وہ گوند ہے، اور جرست: کے معنی چاٹنے کے ہیں، اور عرفط شہد کی مکھی کے پودوں میں سے ایک پودا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: پچھلی حدیث میں مغافیر کی بات کہنے والی عائشہ رضی اللہ عنہا یا حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں، اور اس حدیث میں سودہ رضی اللہ عنہا، یہ دونوں دو الگ الگ واقعات ہیں، اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے، اور پچھلی حدیث میں مذکور واقعہ بعد کا ہے جس کے بعد سورۃ التحریم والی آیت نازل ہوئی۔ ۲؎: عرفط: ایک قسم کی کانٹے دار گھاس ہے جس میں بدبو ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Aishah said (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) liked sweet meats and honey. The narrator then mentioned a part of the tradition mentioned above. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) felt it hard on him to find smell from him. In this tradition saudah said: but you ate gum? He said : No, I drank honey. Hafsah gave it to me to drank. I said: Its bees ate ‘urfut. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Maghafir is a gum; jarasat means ate; ’urfut is a bees ‘ plant.