Abu-Daud:
Medicine (Kitab Al-Tibb)
(Chapter: Ruqyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3888.
سیدنا سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک ندی کے پاس سے گزرے تو میں اس میں داخل ہو گیا اور غسل کیا۔ باہر نکلا تو بخار چڑھا ہوا تھا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابوثابت کو کہو کہ اسے دم کر دے۔“ (رباب کہتی ہے) کہ میں نے (سہل بن حنیف سے) عرض کیا: آقا! کیا دم مفید ہوتے ہیں؟ فرمایا: ”دم بد نظری، سانپ کے کاٹے اور بچھو کے ڈنک ہی میں مفید ہوتے ہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: «الحمة» کا لفظ سانپ اور ہر ڈسنے والے موذی جانور پر بولا جاتا ہے۔
تشریح:
بقول صاحب بذل المحمود (قاَلَت فَقُلتُ یا سیدی) کے جملے میں قالت کا لفظ کسی نا سخ کی غلطی ہےاور بروایت موطا مالک راجح یہ ہے کہ حضرت سہل کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگی تھی تو ان سے ان کے وضو کا پانی لے کر ان پر چھڑکا گیا تھا۔
الطب کی تعریف: لغت میں طب کے معنی ذہنی وجسمانی علاج اور دوا دارو کے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔اسے تمام مخلوقات سے اشرف بنا کرتمام مخلوقات کو اس کے تا بع فرمان بنا دیا ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعا لی کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے لیئےصحت و تندرستی کی اشدضرورت تھی لہذاپروردگارِ عالم نے بے شمار نعمتیں پیدا کیں حلال اور مفید اشیاء کو کھانے کی اجازت دے کر مضرِصحت ،مضرِعقل، مضرِعزت وآبرواشیاء سے منع کردیا۔البتہ پھر بھی اگر اللہ ےتعالی کی مشیت سے بیماری آجائےتو اس کا علاج کرنا مشروع ہے۔ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔ ‘جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے [مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً](صحيح البخارى ،الطب،باب ما انزل الله داء....حديث:5678)’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا )علاج اور دوا) نازل کی ہے۔‘‘ بیماری کے موافق دوا استعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت سے سفا کا باعث بنتا ہے ‘لہذا ہر شخص کو صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے : 1 صحت کی حفاظت2 مضر صحت چیزوں سے بچاؤ3 فاسد مادوں کا اخراج ۔
ان تین چیزوں کو طب اسلامی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ان کا ذکر قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)(البقرہ :185)’’جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ (روزوں کی) گنتی دیگر ایام میں پوری کر لے‘‘
چونکہ بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے بڑھنے کا خدشہ تھا نیز سفر چونکہ تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرہ کا سبب تھا لہذا ان دو حالتو ں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی تا کہ انسانی صحت کی حفاظت ممکن بنائی جا سکے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے (وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ) (النساء:29)’’تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کر و‘‘ اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیممّ کی مشروعیت کا ستنباط کیا گیا ہے ‘چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال مضر صحت ہو سکتا تھا اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔
تیسرے مقام پر ارشاد ہے (أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ)(البقرہ:196)’’یا (محرم کے) سر میں تکلیف ہو تو وہ فدیہ دے(اور سرمنڈ والے۔‘‘)اب اس آیت میں محرم شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دے دی گئی تا کہ فاسدوں سے نجات حاصل ہو سکے جو کہ صحت کے لیے مضر ہیں اس طرح سے شریعت نے انسانی صحت کا مکمل خیال رکھا ہے ۔
٭طب نبویﷺ کے چند لاجواب علاج :طب نبوی میں ایسے نادر اور بے مثال علاج موجود ہیں جو متعدد بیماریوں کا شافی علاج ہیں۔
1 زمزم :ارشاد نبویﷺ ہے[مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ](سنن ابن ماجہ ‘المناسک ‘باب الشرب من زمزم‘حدیث :3062)’’زمزم کو جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے ۔‘‘
بے شمار لوگ اس نسخے سے موذی امراض سے نجات پا چکے ہیں ۔
2شہد :ارشاد باری تعالیٰ ہے (يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ)(النحل:69)’’ان کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے ‘جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے ۔‘‘
3کلونجی:رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے [فِي الحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا السَّامَ] ( صحیح البخاری‘الطب ‘باب الحبۃ السواداء حدیث :5688)’’سیاہ دانے (کلونجی) میں موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے۔‘‘
سیدنا سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک ندی کے پاس سے گزرے تو میں اس میں داخل ہو گیا اور غسل کیا۔ باہر نکلا تو بخار چڑھا ہوا تھا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابوثابت کو کہو کہ اسے دم کر دے۔“ (رباب کہتی ہے) کہ میں نے (سہل بن حنیف سے) عرض کیا: آقا! کیا دم مفید ہوتے ہیں؟ فرمایا: ”دم بد نظری، سانپ کے کاٹے اور بچھو کے ڈنک ہی میں مفید ہوتے ہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: «الحمة» کا لفظ سانپ اور ہر ڈسنے والے موذی جانور پر بولا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
بقول صاحب بذل المحمود (قاَلَت فَقُلتُ یا سیدی) کے جملے میں قالت کا لفظ کسی نا سخ کی غلطی ہےاور بروایت موطا مالک راجح یہ ہے کہ حضرت سہل کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگی تھی تو ان سے ان کے وضو کا پانی لے کر ان پر چھڑکا گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن حنیف ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک ندی پر سے گزرے تو میں نے اس میں غسل کیا، اور بخار لے کر باہر نکلا، اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”ابوثابت کو شیطان سے پناہ مانگنے کے لیے کہو۔“ عثمان کی دادی کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: میرے آقا! جھاڑ پھونک بھی تو مفید ہے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جھاڑ پھونک تو صرف نظر بد کے لیے یا سانپ کے ڈسنے یا بچھو کے ڈنک مارنے کے لیے ہے (ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں ان میں دوا یا دعا کام آتی ہے)۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «حمة» سانپ کے ڈسنے کو کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl ibn Hunayf: I passed by a river. I entered it and took a bath in it. When I came out, I had fever. The Apostle of Allah (ﷺ) was informed about it. He said: Ask Abu Thabit to seek refuge in Allah from that I asked: O my Lord, will the spell be useful? He replied: No, the spell is to be used except for the evil eye or a snake bite or a scorpion sting.