Abu-Daud:
Dialects and Readings of the Qur'an (Kitab Al-Huruf Wa Al-Qira'at)
(Chapter:)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3999.
محمد بن خازم نے بیان کیا کہ جناب اعمش کی مجلس میں «جبرائل» اور «ميكائل» کے تلفظ کی بحث چل پڑی تو اعمش نے بسند سعد طائی، عطیہ عوفی سے انہوں نے سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صور پھونکنے والے فرشتے (اسرافیل) کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی دائیں جانب ”جبرائیل“ اور اس کی بائیں جانب ”میکائل“ ہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ نے بیان کیا کہ «خلف» کہتے ہیں: چالیس سال ہونے کو آئے ہیں کہ میں نے لکھنے سے قلم نہیں اٹھایا ہے مگر مجھے جو الجھن ”جبرائیل اور میکائل“ کے ضبط میں ہوئی ہے کسی اور کلمہ میں نہیں ہوئی۔
تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ جبریل کے تلفظ میں نو لغات ہیں: (1) (2) جبریل: جیم کی زیر اور زبر کےساتھ۔ (3) جبرئل: جیم پر زبر، ہمزہ کی زیر اور لام مشدد۔ (4) جبرائل ر کے بعد الف۔(5) جبراییل: الف کے بعد دو یا (6) جبرئیل: را کے کے بعد ہمزہ اور یا۔ (7) جبرئل: جیم اور را کی زبر ہمزہ کی زیر اور لا مخفف۔ (8) (9) جبرین۔ جیم پر زبراور زیر آخر میں نون۔ تفصیل کے لئے دیکھیے۔ (تھذیب الأسماء واللغات للنووي)
قرآن مجید بنی نوع انسان کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے اہل عرب اپنے مخصوص احوال و ظروف کے تحت اپنے اپنے قبائلی نظم میں اس قدر پختہ تھے کہ اس دور میں ان کے لیے دوسرے قبیلے کا اسلوب نطق و تکلم اختیار کرنا مشکل ہوتا تھا تو رب ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب میں یہ آسانی فرمادی کہ ہر قبیلہ اپنی آسانی کے مطابق جو اسلوب چاہے ‘اختیار کر لے اور اسے ’’ سات حروف‘‘ میں نازل فرما دیا اس سے انہیں اس کے پڑھنے ‘سمجھنے اور حفظ کرنے میں بہت آسانی رہی اور اس میں اس کتاب کا ’’اعجاز‘‘ بھی تھا۔
[اُنزِلَ الْقُرآنُ عَلى سَبْعَةِ أحرُفٍ]’’قرآن کریم سات حروف (قراءتوں اور لہجوں ) پر نازل کیا گیا ہے ۔‘‘ کی تو ضیح میں اگر چہ کافی بحث ہے ‘مگر راجح مفہوم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی لفظ یا تر کیب میں کسی قبیلے کے لیے کوئی مشکل تھی وہاں قرآن کو ان کے اسلوب میں نازل فرما کر انہیں اسی میں قراءت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی یہ مفہوم نہیں کہ ہر ہر آیت یا ہر ہر لفظ سات حروف پر مشتمل ہے مثلاً بقول علامہ ابن جریر طبری ایک معنی و مفہوم کے لیے سات حروف تک نازل کیے گئے ہیں مثلاً ایک مفہوم ’’آؤ‘‘ کے لیے مختلف الفاظ ہیں هَلُمَّ –اَقْبِلْ- تَعَالَ-اِلىَّ قصْدِىْ- نَحْوِى-قُربِى وغیرہ ۔ ان سب کے معنی ایک دوسرے سے ازحد قریب ہیں۔یا دوسری تو جیہ یہ ہے کہ مختلف الفاظ میں بلحاظ ان کے مفرد ‘تثنیہ‘جمع یا مذکر ‘ مونث یا غائب ‘فعل یا اسم ہونے میں فرق آیا ہے یا بلحاظ اعراب مرفوع ‘منصوب اور مجرد ہونے میں یا مقدم مؤخر ہونے میں یا کئی حروف کی کمی بیشی میں سات طرح کے اختلافات ہیں یا بلحاظ نطق و ادائیگی اظہار‘ ادغام ‘ہمز‘تسہیل یا اشمام وغیرہ میں اختلاف ہے الغرض ان متنوع اختلافات سے قرآن کے معانی میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ‘بلکہ یہ سب الفاظ و قراءات با سانید صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوئی ہیں اور ابتدائی تین ادوار یعنی رسول اللہ ﷺ کے دور اور حضرت ابوبکر کے دور میں آزادی سے قراءت ہوتی رہی ‘ پھر جب دور عثمانی میں مملکت اسلامیہ کی حدود ازحد وسیع ہوگئیں اور عجمی لوگ بھی مسلمان ہوگئے جو ان اختلافِ الفاظ کی کنہ و حقیقت اور سہولت سے آشنا نہ تھے تو ان کے آپس میں تنازعات ہوتے لگے ‘تو حضرت عثمان نے ان قراءات کو لغت قریش تک محدود و مخصوص کر دیا جو عرب کی معتبر ‘ٹکسالی اور مقبول لغت تھی اور صحابہ کرام نے اس پر اجماع کر لیا اور امت ایک بہت بڑے اور سنگین اختلاف سے محفوظ ہوگئی۔ والحمد الله رب العالمين ورضى الله عن عثمان و ارضاه
محمد بن خازم نے بیان کیا کہ جناب اعمش کی مجلس میں «جبرائل» اور «ميكائل» کے تلفظ کی بحث چل پڑی تو اعمش نے بسند سعد طائی، عطیہ عوفی سے انہوں نے سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صور پھونکنے والے فرشتے (اسرافیل) کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی دائیں جانب ”جبرائیل“ اور اس کی بائیں جانب ”میکائل“ ہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ نے بیان کیا کہ «خلف» کہتے ہیں: چالیس سال ہونے کو آئے ہیں کہ میں نے لکھنے سے قلم نہیں اٹھایا ہے مگر مجھے جو الجھن ”جبرائیل اور میکائل“ کے ضبط میں ہوئی ہے کسی اور کلمہ میں نہیں ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ جبریل کے تلفظ میں نو لغات ہیں: (1) (2) جبریل: جیم کی زیر اور زبر کےساتھ۔ (3) جبرئل: جیم پر زبر، ہمزہ کی زیر اور لام مشدد۔ (4) جبرائل ر کے بعد الف۔(5) جبراییل: الف کے بعد دو یا (6) جبرئیل: را کے کے بعد ہمزہ اور یا۔ (7) جبرئل: جیم اور را کی زبر ہمزہ کی زیر اور لا مخفف۔ (8) (9) جبرین۔ جیم پر زبراور زیر آخر میں نون۔ تفصیل کے لئے دیکھیے۔ (تھذیب الأسماء واللغات للنووي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس فرشتہ کا ذکر کیا جو صور لیے کھڑا ہے تو فرمایا: ”اس کے داہنی جانب جبرائل ہیں اور بائیں جانب میکائل ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id al-Khudri (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) mentioned the name of the one who will sound the trumpet (sahib as-sur) and said: On his right will be Jibra'il and on his left will be Mika'il.