Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Places In Which Prayer Is Not Allowed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
492.
سیدنا ابوسعید (ابوسعید خدری) ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور موسیٰ (موسیٰ بن اسمٰعیل) نے اپنی روایت میں کہا، عمرو (عمرو بن یحییٰ) کا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”زمین ساری کی ساری مسجد ہے سوائے حمام اور مقبرہ کے۔“
تشریح:
1۔ مذکورہ سندوں میں یہ روایت مسد یقینی طور پر مرفوع ہے۔ مگر عمرو بن یحیٰ کی روایت میں گما ن ہے۔ یقین نہیں۔ محدثین کرام فرامین رسول کے نقل کرنے میں بہت ہی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے۔ 2۔قاضی ابو بکر ابن العربی فرماتے ہیں کہ وہ مقامات جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ تیرہ ہیں۔ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر۔ زبح خانہ۔ مقبرہ۔ راستے کے درمیان۔ حمام۔ اونٹوں کا باڑا۔ بیت اللہ کی چھت۔ قبرستان کے رخ پر۔ بیت الخلاء کی دیوار کی طرف جب کہ اس کی طرف نجاست لگی ہو۔ یہودیوں اور عیسایئوں کے عبادت خانے۔ بتوں اور تصویروں کی طرف رخ کر کے۔ مقام عذاب۔ اورعراقی نے مزید اضافہ کیا کہ۔غصب شدہ زمین پر۔ مسجد ضرار۔ اور وہ جگہ جہاں تنور سامنے ہو تفصیل کے لئے دیکھیں۔ (نیل الأوطار، باب المواضع المنھي عنھا والمازون فیھا لصلوة 55/2)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي، وصححه أيضا ابن خزيمة وابن حبان، وقوّاه ابن حزم وابن دقيق العيد وابن التركماني، وقال شيخ الاسلام ابن تيمية: أسانيده جيدة ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد. (ح) وحدثنا مسدد: ثنا عبد الواحد عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن أبي سعيد قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وقال موسى في حديثه: فيما يحسب عمرو أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح عاس شرط الشيخين؛ وحماد: هو ابن سلمة. وقد تابعه عبد الواحد- وهو ابن زياد-، وهو من رجالهما. والحديث أخرجه أحمد (3/83) : ثنا يزيد: أنا سفيان الثوري وحماد بن سلمة عن عمرو بن يحيى عن أبيه- قال حماد في حديثه: عن أبي سعيد الخدري...-؛ ولم يجز سفيان أباه. وهكذا أخرجه ابن ماجه (1/251- 252) ، والبيهقي (2/434- 435) ، عن يزيد. وهو ابن هارون-. وأخرجه ابن حزم في المحلى (4/27) من طريق حجاج بن منهال: ثنا حماد ابن سلمة... به موصولاً. وأخرجه البيهقي (2/435) من طريق أخرى عن مسدد: ثنا عبد الواحد بن زياد ... به ثم أخرجه هو، وابن خزيمة (2/7/391) ، وابن حبان (338 و 339) ، والحاكم (1/251) ، وابن حزم، وأحمد، (3/96) من طرق أخرى عن عبد الواحد. وقد تابعهما عبد العزيز بن محمد الدراوردي: ثنا عمرو بن يحيى... به. أخرجه الترمذي (1/323) ، وابن خزيمة (792) ، والحاكم أيضا، والبيهقي. وتابعهم محمد بن إسحاق؛ لكنه شذ في لفظه؛ فقال: كل الأرض مسجد وطهور؛ إلا المقبرة والحمام . أخرجه أحمد (3/83) . وقال البزار: أسنده أيضا عن عمرو بن يحيى: أبو طُوالة عبد الله بن عبد الرحمن الأنصاري ؛ ذكره ابن حزم. ثم قال الحاكم: هذه الأسانيد كلها صحيحة على شرط البخاري ومسلم ؛ ووافقه الذهبي. وأما الترمذي؛ فقد أعله برواية الثوري المتقدمة مرسلا! فقال: وكأن رواية الثوري عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أثبت وأصح... مرسلاً !
قلت: وهذا ترجيح عجيب! فكيف تكون رواية سفيان- وهو فرد- أصح من رواية الجماعة وهم ثقات عدول ومعهم زيادة؟! ولو عكس ذلك؛ لكان أقرب بلى الصواب! على أننا نقول: لعل عمرو بن يحيى أو والده كان أحياناً يرسله؛ فرواه الثوري كذلك؛ فذلك لا ينفي صحة الموصول؛ بل كلاهما صحيح ثابت. وقال ابن حزم: قال بعضهم: هذا حديث أرسله سفيان الثوري، وشك في إسناده موسى بن إسماعيل عن حماد بن سلمة. قال علي [يعني: ابن حزم] : فكان ماذا؟! وأي منفعة لهم في شَك موسى ولم يَشُك حجاج؟! وإن لم يكن فوق موسى فليس دونه! أو في إرسال سفيان؛ وقد أسنده حماد وعبد الواحد وأبو طوالة وابن إسحاق؛ وكلهم عدل؟! . وقال صاحب الإمام : حاصل ما عُللَ به: الإرسال، وإذا كان الواصل له ثقة؛ فهو مقبول. وأفحش ابن دِحْيَة، فقال في كتاب التنوير له: هذا لا يصح من طريق من الطرق. كذا قال؛ ولم يصب ؛ كذا في التلخيص (4/39) .
قلت: على أن للثوري قد اختلف عليه فيه: فرواه يزيد بن هارون عنه مرسلاً؛ كما تقدم. ورواه أبو نعيم وقَبِيصة: ثنا سفيان عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن أبي سعيد... به موصولاً. رواه الدارقطني في العلل قال: حدثنا جعفر بن محمد المؤذن- ثقة-: ثنا السرِيَ بن يحيى: ثنا أبو نعيم وقبيصة... به، وقال: المرسل المحفوظ . وقد أشار إلى هذا البيهقي؛ حيث قال عقب رواية يزيد بن هارون: حديث الثوري مرسل؛ وقد روي موصولاً؛ وليس بشيء. وحديث حماد بن سلمة موصول؛ وقد تابعه على وصله: عبد الواحد بن زياد والدراوردي . وتعقبه ابن التركماني بقوله:
قلت: إذا وصله ابن سلمة، وتوبع على وصله من هذه الأوجه؛ فهو زيادة ثقة؛ فلا أدري ما وجه قول البيهقي: ليس يشيء؟! !
قلت: وهذا التعقُب لا شيء! فإن قول البيهقي هذا إنما أراد به حديث الثوري خاصة لا أصل الحديث؛ كأنه يقول: وقد روي حديث الثوري موصولاً وليس يشيء؛ فهو بمعنى قول الدارقطني المتقدم: المرسل المحفوظ ؛ يعني: المرسل عن الثوري هو المحفوظ، لا الوصول عنه. ويدل على ما ذهبنا إليه؛ قول البيهقي عقب ذلك: وحديث ابن سلمة موصول... إلخ؛ فإنه كالصريح على أنه أراد بذلك الكلام حديثَ الثوري وحده. ولذلك لا يمكن القول- كما فعل الحافظ في التلخيص -: إن البيهقي رجح المرسل أيضا ! والله أعلم. وثَم وهَم آخر يجب التنبيه عليه أيضا؛ فقد قال الأستاذ الفاضل الشيخ أحمد محمد شاكر في تعليقه على الترمذي (2/133) - إثر قول البيهقي المذكور آنفاً-: ولا أدري كيف يزعم الترمذي ثم البيهقي أن الثوري رواه مرسلاً؛ في حين أن روايته موصولة أيضا؟! ثمِ الذي وصله عن الثوري: هو يزيد بن هارون، وهو حجة حافظ، وأنا لم أجده مرسلآ من رواية الثوري؛ إنما رأيته كذلك من رواية سفيان بن عيينة؛ فلعله اشتبه عليهم سفيان بسفيان إ!
قلت: لو وقف الأستاذ الفاضل على رواية أحمد المتقدمة عن يزيد بن هارون عن الثوري؛ لما قال ما قال، ولما رمى الأئمة بالوهم! ذلك لأنها صريحة في أنها مرسلة. ثم إن رواية سفيان التي زعم أنها موصولة؛ إنما عنى بها رواية البيهقي عن يزيد، فهي ليست صريحة فيما ادعى؛ بل هي تحتمل الوصل والإرسال؛ حيث إن سياقها هكذا:... ثنا يزيد بن هارون: آبَنا سفيان الثوري عن عمرو بن يحيى عن أبيه. وحماد بن سلمة عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن أبي سعيد قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... حديث الثوري مرسل وقد روي موصولاً... إلخ. فهذا- كما ترى- محتمل للوجهين الذين ذكرنا؛ لكن قول البيهقي: حديث الثوري مرسل دليل على أنه وقع عنده كذلك؛ وإلا فمن غير المعقول أن تكون الرواية عنده موصولة، ثم يقول: إنها مرسلة دون أن يبين وجه ذلك! ويؤيد ذلك تصريح أحمد بأنها مرسلة كما سبق. ثم إن الفاضل المذكور قد وقع في وهم آخر؛ حيث قال عند تخريج الحديث: ورواه أبو داود (ج 1/ص 184) ، والشافعي في الأم (ج 1/ص 79) عن سفيان بن عيينة عن عمرو... مرسلاً ! وهذه الرواية ليست عند المصنف رحمه الله! وقد أشار بالجزء والصفحة إلى موضعها من النسخة التي عليها شرح عن العبود ، والتي منها ننقل، وعليها نعتمد في هذا الكتاب، وليس في هذه الصفحة ولا في غيرها منها هذه الرواية؛ فهو وهم واضح! نسأل الله تعالى التوفيق. ثم إن للحديث طريقاً أخرى هو في منجىِ من ذلك الاختلاف؛ فقد أخرجه الحاكم، ومن طريقه البيهقي: عن عُمَارة بن غزِية عن يحيى بن عمارة الأنصاري عن أبي سعيد الخدري مرفوعاً... به. وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. ولذلك قال شيخ الإسلام ابن تيمية في اقتضاء الصراط المستقيم (ص 160) : أسانيده جيدة، ومن تكلم فيه؛ فما استوفى طرقه .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوسعید (ابوسعید خدری) ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور موسیٰ (موسیٰ بن اسمٰعیل) نے اپنی روایت میں کہا، عمرو (عمرو بن یحییٰ) کا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”زمین ساری کی ساری مسجد ہے سوائے حمام اور مقبرہ کے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ مذکورہ سندوں میں یہ روایت مسد یقینی طور پر مرفوع ہے۔ مگر عمرو بن یحیٰ کی روایت میں گما ن ہے۔ یقین نہیں۔ محدثین کرام فرامین رسول کے نقل کرنے میں بہت ہی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے۔ 2۔قاضی ابو بکر ابن العربی فرماتے ہیں کہ وہ مقامات جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ تیرہ ہیں۔ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر۔ زبح خانہ۔ مقبرہ۔ راستے کے درمیان۔ حمام۔ اونٹوں کا باڑا۔ بیت اللہ کی چھت۔ قبرستان کے رخ پر۔ بیت الخلاء کی دیوار کی طرف جب کہ اس کی طرف نجاست لگی ہو۔ یہودیوں اور عیسایئوں کے عبادت خانے۔ بتوں اور تصویروں کی طرف رخ کر کے۔ مقام عذاب۔ اورعراقی نے مزید اضافہ کیا کہ۔غصب شدہ زمین پر۔ مسجد ضرار۔ اور وہ جگہ جہاں تنور سامنے ہو تفصیل کے لئے دیکھیں۔ (نیل الأوطار، باب المواضع المنھي عنھا والمازون فیھا لصلوة 55/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اور موسیٰ (موسیٰ بن اسمٰعیل) نے اپنی روایت میں کہا، عمرو (عمرو بن یحییٰ) کا خیال ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا): ”ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے، سوائے حمام (غسل خانہ) اور قبرستان کے۔“
حدیث حاشیہ:
مذکورہ سندوں میں روایت مسدد یقینی طور پر مرفوع ہے، محدثین کرام رحمہ اللہ علیہم فرامین رسول کے نقل کرنے میں بہت ہی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'id: and the narrator Musa said: As far as 'Amr thinks, the Prophet (ﷺ) said: The whole earth is a place of prayer except public baths and graveyards.