باب: ( نبی کریم ﷺ کا ) نام اور کنیت جمع کر لینے کی رخصت کا بیان
)
Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Concession allowing them to be combined)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4967.
جناب محمد ابن حنفیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو، تو کیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ (راوی حدیث) ابوبکر بن ابوشیبہ کے الفاظ میں «قلت» کا لفظ نہیں ہے، بلکہ یوں ہے کہ «قال علي عليه السلام للنبي صلى الله عليه وسلم» ”سیدنا علی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا۔“
تشریح:
اس واقعےسے نام اور کنیت دونوں کے رکھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
جناب محمد ابن حنفیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو، تو کیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ (راوی حدیث) ابوبکر بن ابوشیبہ کے الفاظ میں «قلت» کا لفظ نہیں ہے، بلکہ یوں ہے کہ «قال علي عليه السلام للنبي صلى الله عليه وسلم» ”سیدنا علی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا۔“
حدیث حاشیہ:
اس واقعےسے نام اور کنیت دونوں کے رکھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ علی ؓ نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد میرے بیٹا پیدا ہو تو میں اس کا نام اور اس کی کنیت آپ کے نام اور آپ کی کنیت پر رکھوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): I said: Apostle of Allah! Tell me if a son is born to me after your death, may I give him your name and your kunyah? He replied: Yes.