تشریح:
مسلمان کو فضیلت والے مقام کی طرف سبقت کرنا اور اس کا حریص ہونا چاہیے تاکہ خصوصی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بن سکے۔ خیال رہے کہ امام بائیں جانب کوبھی نہیں بھول جانا چاہیے تاکہ ’’صفوں کی برابری،، قائم رہے۔ اجر وفضیلت کا تعلق نیت سے بھی ہوتا ہے۔ ایک آدمی جسے اما م کی دائیں جانب کھڑا ہونا ممکن ہے مگر جب دیکھتا ہے کہ اس کی بائیں جانب خالی ہے تو اس طرف کھڑا ہوجائے تو ان شاء اللہ مذکورہ اجر وفضیلت سےمحروم نہیں رہے گا۔ (وَاللہُ ذُو فضل عظیم۔ واللہ أعلم) علاوہ ازیں یہ روایت صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد (الفتح الرباني: 5؍ 316) والموسوعة الحدیثیة) (مسند أحمد، حدیث: 24381) میں بایں الفاظ ہے۔ (إِن اللہَ و ملائکتهُ یُصلون علی الذین یَصِلُون الصفوفَ) ’’اللہ تعالی ان لوگوں پررحمت نازل فرماتا اور فرشتے ان کے لیے دہائیں کرتےہیں جوصفوں کو ملاتےہیں۔،، اور شیخ البانی � نے اس حدیث کو انہی الفاظ کےساتھ ’’حسن،، قرار دیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک اس حدیث میں (میامن الصفوف) کی بجائے (یصلون الصفوف) ہی کےالفاظ ہیں، جن سے صفوں کے ملانے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے، نہ کہ امام کہ دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضیلت، صف بندی کا صحیح طریقے سے اہتمام کرنے میں ہے۔ تاہم ہر معاملے میں داہنے پن کی جوعمومی فضیلت ہے، اس کے تحت امام کی داہنی جانب باعث فضیلت ہوسکتی ہے۔ واللہ أعلم