قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِيَ إِيمَانُهُ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1059.05. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ - يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ الْحَرْفَ بَعْدَ الْحَرْفِ - قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ، وَغَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَنَعَمِهِمْ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلَافٍ، وَمَعَهُ الطُّلَقَاءُ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ، حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، قَالَ: فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ، لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ» فَقَالُوا: لَبَّيْكَ، يَا رَسُولَ اللهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ» قَالُوا: لَبَّيْكَ، يَا رَسُولَ اللهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ، فَنَزَلَ فَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، وَأَصَابَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى، وَتُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟» فَسَكَتُوا، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللهِ، رَضِينَا، قَالَ: فَقَالَ: «لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ» قَالَ هِشَامٌ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ؟ قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ؟

مترجم:

1059.05.

ہشام بن زید بن انس نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: جب حنین کی جنگ ہوئی تو ہوازن اور غطفان اور دوسرے لوگ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو لے کر آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس روز دس ہزار (اپنے ساتھی) تھے اور وہ لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے جنھیں (فتح مکہ کے موقع پر غلام بنانے کی بجائے) آزاد کیا گیا تھا۔ یہ آپﷺ کو چھوڑ کر پیچھے بھاگ گئے حتیٰ کہ آپ ﷺ اکیلے رہ گئے، کہا: آپ ﷺ نے اس دن (مہاجرین کے بعد انصار کو) دو دفعہ پکارا، ان دونوں کو آپس میں زرہ برابر گڈ مڈ نہ کیا، آپﷺ دائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی: ’’اے جماعت انصار!‘‘ انھوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول ﷺ خوش ہوجائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ ﷺ بائیں طرف متوجہ ہوئےاور فرمایا: ’’اے جماعت انصار!‘‘ انھوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول ﷺ خوش ہو جائیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ (اس وقت) سفید خچر پر سوار تھے، آپ ﷺ نیچے اترے اور فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ﷺ ہوں۔‘‘ چنانچہ مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ ﷺ نے غنیمت کے بہت سے اموال حاصل کیے تو آپ ﷺ نے انھیں (فتح مکہ سے زرا قبل) ہجرت کرنے والوں اور(فتح مکہ کے موقع پر) آزاد رکھے جانے والوں میں تقسیم کر دیا اور انصارکو کچھ نہ دیا، اس پر انصار نے کہا: جب سختی اورشدت کا موقع ہو تو ہمیں بلایا جاتا ہے۔ اور غنیمتیں دوسروں کو دی جاتی ہیں! یہ بات آپ ﷺ تک پہنچ گئی، اس پر آپﷺ نے انھیں سائبان میں جمع کیا اور فرمایا: ’’اے انصار کی جماعت! وہ کیا بات ہے جو مجھے تمھارے بارے میں پہنچی ہے؟‘‘ وہ خاموش رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے انصار کی جماعت! کیا تم اس بات پر راضی نہ ہو گے کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم محمد ﷺ کو اپنی جمعیت میں شامل کر کے اپنے ساتھ گھروں کو لے جاؤ۔‘‘ وہ کہہ اٹھے: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم (اس پر) راضی ہیں۔ کہا: تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں، تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔‘‘ ہشام نے کہا میں نے پوچھا: ابوحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت) آپ اس کے(عینی) شاہد تھے؟ انھوں نے کہا: میں آپ ﷺ کو چھوڑ کر کہاں غائب ہو سکتا تھا۔