قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1211.09. حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ، حَتَّى جِئْنَا سَرِفَ فَطَمِثْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكِ؟» فَقُلْتُ: وَاللهِ، لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: «مَا لَكِ؟ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي» قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْتُ مَكَّةَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ «اجْعَلُوهَا عُمْرَةً» فَأَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، قَالَتْ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهَرْتُ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ، قَالَتْ: فَأُتِيَنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: أَهْدَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، يَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ؟ قَالَتْ: فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي عَلَى جَمَلِهِ، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَذْكُرُ، وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، أَنْعَسُ فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ، حَتَّى جِئْنَا إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهْلَلْتُ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ، جَزَاءً بِعُمْرَةِ النَّاسِ الَّتِي اعْتَمَرُوا

مترجم:

1211.09.

عبد الرحمٰن ابن سلمہ ماجثون نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے انھوں نے اپنے والد (قاسم) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی۔ (انھوں نے) کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور حج ہی کا ذکر کر رہے تھے۔ جب ہم سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ (اس اثنا میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے (حجرے میں) داخل ہو ئے تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: تمھیں کیا رلا رہا ہے؟ میں نے جواب دیا اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: تمھا رے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ چیز تو اللہ نے آدم علیہ السلا م کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔ تم تمام کا م ویسے کرتی جاؤ جیسے (تمام) حا جی کریں مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: ’’تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو۔ جن کے پاس قربانیا ں تھیں ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اسی کے مطا بق عمرے کا) تلبیہ پکارنا شروع کر دیا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا اور قربانیاں (صرف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر و عمر اور(بعض) اصحاب ثروت رضوان اللہ عنھم اجمعین (ہی) کے پاس تھیں۔ جب وہ چلے تو انھوں نے (حج) کا تلبیہ پکارا۔(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا: جب قر بانی کا دن آیا تو میں پاک ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے طواف (افاضہ) کر لیا۔ (انھوں نے) کہا: ہمارے پاس گا ئے کا گو شت لا یا گیا میں نے پو چھا: یہ کیا ہے؟ انھوں (لا نے والوں) نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قربانی دی ہے۔ جب (مدینہ کے راستے منیٰ کے فوراً بعد کی منزل) مَحْصَبْ کی رات آئی تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! لو گ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں اور میں (اکیلا) حج کر کے لوٹوں؟ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھا یا۔ (انھوں نے) کہا: مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں (اس وقت نو عمر لڑکی تھی (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجا وے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرے کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ پکا را۔