قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1211.2. حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، - قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا، وقَالَ إِسْحَاقُ: - أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ، أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ: فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ، وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ الْهَدْيَ، فَأَحْلَلْنَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحِضْتُ، فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ؟ قَالَ: «أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ؟» قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ مَوْعِدُكِ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا» قَالَتْ صَفِيَّةُ: مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ، قَالَ «عَقْرَى حَلْقَى، أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ» قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: «لَا بَأْسَ، انْفِرِي» قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَيْهَا، أَوْ أَنَا مُصْعِدَةٌ وَهُوَ مُنْهَبِطٌ مِنْهَا وقَالَ إِسْحَاقُ: مُتَهَبِّطَةٌ وَمُتَهَبِّطٌ.

مترجم:

1211.2.

منصور نے ابرا ہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم اس کو حج ہی سمجھتے تھے۔ جب ہم مکہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:  ’’جو اپنے ساتھ قربانی نہیں لا یا وہ احرا م کھو ل دے۔‘‘ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا: جتنے لو گ بھی قربانی ساتھ نہیں لا ئے تھے۔ انھوں نے احرا م ختم کر دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی اپنے ساتھ قربانیا ں نہیں لا ئیں تھیں تو وہ بھی احرا م سے باہر آ گئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: (لیکن) میرے ایام شروع ہو گئے تھے اور میں بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی جب حَصبَہ کی رات آئی ،کہا: تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !لوگ حج اور عمرہ کر کے لو ٹیں اور میں صرف حج کر کے لو ٹو ں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جن راتوں (تاریخوں) میں ہم مکہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے کہا۔ جی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تو پھر اپنے بھا ئی (عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مقام تنعیم تک چلی جاؤ اور وہاں سے (عمرے کا حرا م باندھ کر) عمرے کا تلبیہ پکارو (اور عمرہ کر لو) پھر تم فلاں مقام پر آ ملنا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگیں: میں اپنے بارے میں سمجھتی ہوں کہ میں (بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے والی ہوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(اپنی قوم کی زبان میں) عقریٰ حلقٰی (بے اولاد، بے بال، یہود حائضہ عورت کے لیے یہی لفظ بو لتے تھے) کیا تم نے عید کے دن طواف نہیں کیا تھا ؟ کہا :کیوں نہیں (کیا تھا!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(تو پھر) کو ئی بات نہیں ،اب چل پڑو۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: (دوسری صبح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے (اس وقت) ملے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چڑھائی پر آ رہے تھے اور میں مکہ کی سمت اتر رہی تھی ۔۔۔یا میں چڑھا ئی پر جا رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اتر رہے تھے (واپس آ رہے تھے )۔۔۔اور اسحاق نے مُتَهَبِّطَهٌ (اترنےوالی) اور مُتَهَبِّطٌ (اترنے والے) کے الفاظ کہے۔ (مفہوم وہی ہے)۔