قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1333.05. حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ، تَرَكَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ - أَوْ يُحَرِّبَهُمْ - عَلَى أَهْلِ الشَّامِ، فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْكَعْبَةِ، أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَاءَهَا؟ أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَى مِنْهَا؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا، أَرَى أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَى مِنْهَا، وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ، وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا، وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: " لَوْ كَانَ أَحَدُكُمُ احْتَرَقَ بَيْتُهُ، مَا رَضِيَ حَتَّى يُجِدَّهُ، فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ؟ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا، ثُمَّ عَازِمٌ عَلَى أَمْرِي، فَلَمَّا مَضَى الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُضَهَا، فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ السَّمَاءِ، حَتَّى صَعِدَهُ رَجُلٌ، فَأَلْقَى مِنْهُ حِجَارَةً، فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْءٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّى بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ، فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً، فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّى ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ، وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ، وَلَيْسَ عِنْدِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَى بِنَائِهِ، لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ»، قَالَ: «فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ، وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ»، قَالَ: " فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ حَتَّى أَبْدَى أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَبَنَى عَلَيْهِ الْبِنَاءَ وَكَانَ طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ، فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ، وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ: أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ، وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ ". فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ كَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَاءَ عَلَى أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ: إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ، وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَى بِنَائِهِ، وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ، فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إِلَى بِنَائِهِ

مترجم:

1333.05.

عطا ء سے روایت ہے انھوں نے کہا، یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا، تو اس کی جو حالت تھی سو تھی، ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے (اسی حالت پر) رہنے دیا حتیٰ کہ حج کے مو سم میں لو گ (مکہ) آنے لگے وہ چا ہتے تھے کہ انھیں ہمت دلا ئیں ۔۔ یا اہل شام کے خلاف جنگ پر ابھا ریں ۔۔۔ جب لو گ آئے تو انھوں نے کہا اے لوگو! مجھے کعبہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے گرا کر (از سر نو) اس کی عمارت بنا دوں یا اس کا جو حصہ بو سیدہ ہو چکا ہے صرف اس کی مرمت کرا دوں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا میرے سامنے ایک رائے واضح ہوئی ہے میری را ئے یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ کمزور ہو گیا ہے، آپ اس میں مرمت کرا دیں اور بیت اللہ کو (اسی طرح باقی) رہنے دیں جس پر لو گ اسلا م لا ئے اور ان پتھروں کو (باقی چھوڑ دیں) جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ  سلم کی بعثت ہو ئی، اس پر ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم میں سے کسی کا اپنا گھر جل جا ئے تو وہ اس وقت تک راضی نہیں ہو تا جب تک کہ اسے نیا (نہ) بنا لے تو تمھا رے رب کے گھر کا کیا ہو؟ میں تین دن اپنے رب سے استخارہ کروں گا، پھر اپنے کام کا پختہ عزم کروں گا۔ جب تین دن گزر گئے تو انھوں نے اپنی را ئے پختہ کر لی کہ اسے گرا دیں تو لو گ (اس ڈر سے) اس سے بچنے لگے کہ جو شخص اس (عمارت) پر سب سے پہلے چڑھے گا اس پر آسمان سے کو ئی آفت نازل ہو جا ئے گی، یہاں تک کہ ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس سے ایک پتھر گرا دیا جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (گرا نے لگے) حتیٰ کہ اسے زمین تک پہنچا دیا۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند (عارضی) ستون بنا ئے اور پردے ان پر لٹکا دیے، یہاں تک کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے سنا بلا شبہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  سلم نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہ ہوتا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں جو اس کی تعمیر (مکمل کرنے) میں میرا معاون ہو تو میں حطیم سے پانچ ہاتھ (زمین) اس میں ضرور شامل کرتا اور اس کا ایک (ایسا) دروازہ بنا تا جس سے لوگ اندر داخل ہو تے اور ایک دروازہ (ایسا بنا تا) جس سے باہر نکلتے۔ (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا آج میرے پاس اتنا مال ہے جو خرچ کرسکتا ہوں، اور مجھے لوگوں کا خوف بھی نہیں (عطاء نے) کہا تو انھوں نے حطیم سے پانچ ہاتھ اس میں شامل کیے، (کھدا ئی کی) حتیٰ کہ انھوں نے ابراہیمی) بنیا د کو ظاہر کر دیا لوگوں نے بھی اسے دیکھا اس کے بعد انھوں نے اس پر عمارت بنا ئی کعبہ کا طول (اونچا ئی) اٹھا رہ ہاتھ تھی (یہ اس طرح ہو ئی کہ) جب انھوں نے (حطیم کی طرف سے) اس میں اضافہ کر دیا تو (پھر) انھیں (پہلی اونچا ئی) کم محسوس ہو ئی چنانچہ انھوں نے اس کی اونچا ئی میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا، اور اس کے دروازے بنائے ایک میں سے اندر دا خلہ ہو تا تھا اور دوسرے سے باہر نکلا جا تا تھا، جب ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل کر دیے گئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو اطلا ع دیتے ہو ئے خط لکھا اور اسے خبر دی کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تعمیر اس (ابرا ہیمی) بنیا دوں پر استورکی جسے اہل مکہ کے معتبر (عدول) لوگوں نے (خود) دیکھا عبد الملک نے اسے لکھا۔ ہمارا ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ردو بدل سے کو ئی تعلق نہیں البتہ انھوں نے اس کی اونچائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے بر قرار رہنے دو اور جو انھوں نے حطیم کی طرف سے اس میں اضافہ کیا ہے اسے (ختم کر کے) اس کی سابقہ بنیا د پر لوٹا دو اور اس دروازے کو بند کر دو جو انھوں نے کھو لا ہے، چنانچہ اس نے اسے گرا دیا اس کی (پچھلی) بنیاد پر لو ٹا دیا۔