قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ تَزْوِيجِ الْأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِيرَةَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1422. حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ»، قَالَتْ: " فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَوُعِكْتُ شَهْرًا، فَوَفَى شَعْرِي جُمَيْمَةً، فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ، وَأَنَا عَلَى أُرْجُوحَةٍ، وَمَعِي صَوَاحِبِي، فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا، وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي فَأَخَذَتْ بِيَدِي، فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى الْبَابِ، فَقُلْتُ: هَهْ هَهْ، حَتَّى ذَهَبَ نَفَسِي، فَأَدْخَلَتْنِي بَيْتًا، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَغَسَلْنَ رَأْسِي وَأَصْلَحْنَنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى، فَأَسْلَمْنَنِي إِلَيْهِ

مترجم:

1422.

ابو اسامہ نے ہشام سے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہ س‬ے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور جب میں نو برس کی تھی تو میرے ساتھ گھر بسایا۔ کہا: ہم (ہجرت کے بعد) مدینہ آئے تو میں ایک مہینہ بخار میں مبتلا رہی۔ (اور میرے سر کے بال جھڑ گئے، جب صحت یاب ہوئی تو) پھر میرے بال (اچھی طرح سے اگ آئے حتیٰ کہ) گردن سے نیچے تک کی چٹیا بن گئی۔ (ان دنوں ایک روز میری والدہ) ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے پاس آئیں جبکہ میں جھولے پر (جھول رہی) تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں، انہوں نے مجھے زور سے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے دروازے پر لاکھڑا کیا، (سانس پھولنے کی وجہ سے) میرے منہ سے ھہ ھہ کی آواز نکل رہی تھی، حتیٰ کہ جب میری سانس (چڑھنے کی کیفیت) چلی گئی تو وہ مجھے ایک گھر کے اندر لے آئیں تو (غیر متوقع طور پر) وہاں انصار کی عورتیں (جمع) تھیں، وہ کہنے لگیں، خیر وبرکت پر اور اچھے نصیب پر (آئی ہو۔) تو انہوں (میری والدہ) نے مجھے ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے میرا سر دھویا، اور مجھے بنایا سنوارا، پھر میں اس کے سوا کسی بات پر نہ چونکی کہ اچانک چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ اور ان عورتوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔