قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ زَوَاجِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَنُزُولِ الْحِجَابِ، وَإِثْبَاتِ وَلِيمَةِ الْعُرْسِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1428.02. وحَدَّثَنِي بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ هَاشِمِ بْنِ حَيَّانَ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ فِي مَقْسَمِهِ، وَجَعَلُوا يَمْدَحُونَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَيَقُولُونَ: مَا رَأَيْنَا فِي السَّبْيِ مِثْلَهَا، قَالَ: فَبَعَثَ إِلَى دِحْيَةَ، فَأَعْطَاهُ بِهَا مَا أَرَادَ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّي، فَقَالَ: «أَصْلِحِيهَا»، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، حَتَّى إِذَا جَعَلَهَا فِي ظَهْرِهِ نَزَلَ، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَيْهَا الْقُبَّةَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ، فَلْيَأْتِنَا بِهِ»، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِفَضْلِ التَّمْرِ، وَفَضْلِ السَّوِيقِ، حَتَّى جَعَلُوا مِنْ ذَلِكَ سَوَادًا حَيْسًا، فَجَعَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ ذَلِكَ الْحَيْسِ، وَيَشْرَبُونَ مِنْ حِيَاضٍ إِلَى جَنْبِهِمْ مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَقَالَ أَنَسٌ: فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا، حَتَّى إِذَا رَأَيْنَا جُدُرَ الْمَدِينَةِ هَشِشْنَا إِلَيْهَا، فَرَفَعْنَا مَطِيَّنَا، وَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطِيَّتَهُ، قَالَ: وَصَفِيَّةُ خَلْفَهُ، قَدْ أَرْدَفَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَعَثَرَتْ مَطِيَّةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَصُرِعَ وَصُرِعَتْ، قَالَ: فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَلَا إِلَيْهَا، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَتَرَهَا، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ، فَقَالَ: «لَمْ نُضَرَّ»، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَدِينَةَ، فَخَرَجَ جَوَارِي نِسَائِهِ يَتَرَاءَيْنَهَا وَيَشْمَتْنَ بِصَرْعَتِهَا.

مترجم:

1428.02.

سلیمان بن مغیرہ نے ہمیں ثابت سے حدیث بیان کی کہا: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت صفیہ، حضرت دحیہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ک‬ے حصے میں آ گئیں، (آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے دحیہ‬ رضی اللہ تعالی عنہ  ک‬و اپنے حصے کی ایک کنیز لینے کی اجازت دے کر غیر رسمی طور پر تقسیم کا آغاز فرما دیا تھا۔) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ان کی تعریف کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے: ہم نے قیدیوں میں ان جیسی عورت نہیں دیکھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، اور ان کے بدلے میں جو انہوں نے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے میری والدہ کے سپرد کیا اور فرمایا: ’’اسے بنا سنوار دو۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر سے نکلے حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پشت کی طرف کر لیا، (خیبر پیچھے رہ گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑاؤ ڈالا، پھر ان (حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے لیے خیمہ لگوایا،  جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس زادِ راہ سے زائد کچھ ہو وہ اسے ہمارے پاس لے آئے۔‘‘ کہا: اس پر کوئی آدمی زائد کھجوریں لے کر آنے لگا اور (کوئی) زائد ستو، حتیٰ کہ لوگوں نے ان چیزوں سے ایک ڈھیر مخلوط کھانے (حَیس) کا بنا لیا، پھر وہ اس حیس میں سے تناول کرنےلگے اور بارش کے پانی کے حوضوں سے جو ان کے قریب تھے پانی پینے لگے۔ کہا: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یہ تھا ان (صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ولیمہ۔ کہا: اس کے بعد ہم چل پڑے، جب ہم نے مدینہ کی دیواریں دیکھیں تو ہم شدتِ شوق سے اس کی طرف لپک پڑے، ہم نے اپنی سواریاں اٹھا دیں (تیز کر دیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنی سواری اٹھا دی۔ کہا: صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا، کہا: (اچانک) رسول اللہ کی سواری کو ٹھوکر لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم زمین پر آ رہے اور وہ (حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی زمین پر آ رہیں، کہا: لوگوں میں سے کوئی بھی نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھ رہا تھا اور نہ ان کی طرف، کہا: حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور حضرت صفیہ‬ رضی اللہ تعالیٰعنہا ک‬ے آگے پردہ کیا، پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘‘ پھر ہم مدینہ کے اندر داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کی باندیاں باہر نکل آئیں، وہ ایک دوسری کو وہ (صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) دکھا رہی تھیں، اور ان کے گرنے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھیں۔