قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ رَفْعِ الْأَمَانَةِ وَالْإِيمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ، وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

144. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْفِتَنَ؟ فَقَالَ قوْمٌ: نَحْنُ سَمِعْنَاهُ، فَقَالَ: لَعَلَّكُمْ تَعْنُونَ فِتْنَةَ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَجَارِهِ؟ قَالُوا: أَجَلْ، قَالَ: تِلْكَ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ، وَلَكِنْ أَيُّكُمْ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الَّتِي تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ: فَأَسْكَتَ الْقَوْمُ، فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: أَنْتَ لِلَّهِ أَبُوكَ قَالَ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا، فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا، نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا، نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ، عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ، وَالْآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ، مُجَخِّيًا لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا، إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ»، قَالَ حُذَيْفَةُ: وَحَدَّثْتُهُ، «أَنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا يُوشِكُ أَنْ يُكْسَرَ»، قَالَ عُمَرُ: أَكَسْرًا لَا أَبَا لَكَ؟ فَلَوْ أَنَّهُ فُتِحَ لَعَلَّهُ كَانَ يُعَادُ، قُلْتُ: «لَا بَلْ يُكْسَرُ»، وَحَدَّثْتُهُ «أَنَّ ذَلِكَ الْبَابَ رَجُلٌ يُقْتَلُ أَوْ يَمُوتُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ» قَالَ أَبُو خَالِدٍ: فَقُلْتُ لِسَعْدٍ: يَا أَبَا مَالِكٍ، مَا أَسْوَدُ مُرْبَادٌّ؟ قَالَ: «شِدَّةُ الْبَيَاضِ فِي سَوَادٍ»، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الْكُوزُ مُجَخِّيًا؟ قَالَ: «مَنْكُوسًا».

مترجم:

144.

ابو خالد سلیمان بن حیانؒ نے سعد بن طارقؒ سے حدیث سنائی، انہوں نے ربعیؒ سے اور انہوں نے حضرت حذیفہؓ سے روایت کی، انہوں نےکہا: ہم حضرت عمرؓ کے پاس تھے، انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا؟ کچھ لوگوں نے جواب دیا: ہم نے یہ ذکر سنا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’شاید تم وہ آزمائش مراد لے رہے ہو جو آدمی کو اس کے اہل، مال اور پڑوسی (کے بارے) میں پیش آتی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: جی ہاں! حضرت عمرؓ نے کہا: ’’اس فتنے (اہل، مال اور پڑوسی کے متعلق امور میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں) کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں۔ لیکن تم میں سے کس نے رسول اللہ ﷺ سے اس فتنے کا ذکر سنا ہے جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا؟‘‘ حذیفہؓ نے کہا: اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے، تو میں نے کہا: میں نے (سنا ہے۔) حضرت عمرؓ نے کہا: تو نے! تیرا باپ اللہ ہی کا (بندہ) ہے (کہ اسے تم سا بیٹا عطا ہوا۔) حذیفہؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سےسنا، آپ فرما رہے تھے : ’’فتنے دلوں پر ڈالے جائیں گے، چٹائی (کی بنتی) کی طرح تنکا تنکا (ایک ایک) کر کے، اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا (اس نے ان کو قبول کر لیا اور اپنے اندر بسا لیا)، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا، اور جس دل نے ان کو رد کر دیا، اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے: (ایک دل) سفید، چکنے پتھر کے مانند ہو جائے گا۔ جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے، کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔  دوسرا: کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کے مانند (جس پر پانی کی بوند بھی نہیں ٹکتی) جو نہ کسی نیکی کو پہچانے گا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا، سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ (دل) لبریز ہو گا۔‘‘ حذیفہؓ نے کہا: میں نےعمرؓ سے بیان کیا کہ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان بند دروازے ہے، قریب ہے کہ اسے توڑ دیا جائے گا؟ عمرؓ نے پوجھا: تیرا باپ نہ رہے! کیا توڑ دیا جائے گا؟ اگر اسے کھول دیا گیا تو ممکن ہے کہ اسے دوبارہ بند کیا جاسکے۔ میں نے کہا: نہیں! بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ اور میں نے انہیں بتا دیا: وہ دروازہ آدمی ہے جسے قتل کر دیا جائے گا یا فوت ہو جائے گا۔ (حذیفہؓ نے کہا: میں نے انہیں) حدیث (سنائی کوئی)، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں۔ ابو خالدؒ نے کہا: میں نے سعدؒ سے پوچھا: ابو مالکؒ! "أَسْوَدُ مُرْبَادًّا" سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: کالے رنگ میں شدید سفیدی (مٹیالے رنگ۔) کہا: میں نے پوچھا: "الْكُوزُ مُجَخِّيًا" سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: الٹا کیا ہوا کوزہ۔