قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الرِّضَاعِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1466.06. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيَّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي، فَأَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ»، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قُلْتُ: أَبْطَأَ بِي جَمَلِي، وَأَعْيَا فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ فَحَجَنَهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: «ارْكَبْ»، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَكُفُّهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتَزَوَّجْتَ؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: «أَبِكْرًا، أَمْ ثَيِّبًا؟» فَقُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ، قَالَ: «فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ» قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ، وَتَمْشُطُهُنَّ، وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: «أَمَا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ»، ثُمَّ قَالَ: «أَتَبِيعُ جَمَلَكَ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْتُ الْمَسْجِدَ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: «الْآنَ حِينَ قَدِمْتَ» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعْ جَمَلَكَ، وَادْخُلْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لِي أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ فِي الْمِيزَانِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ، قَالَ: «ادْعُ لِي جَابِرًا»، فَدُعِيتُ، فَقُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، فَقَالَ: «خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ»

مترجم:

1466.06.

وہب بن کیسان نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله تعالیٰ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلا تھا، میرے اونٹ نے میری رفتار سست کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: ’’جابر!‘‘ میں نے عرض کی: جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: میرے لیے میرا اونٹ سست پڑ چکا ہے اور تھک گیا ہے، اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی سواری سے) اترے اور اپنی مڑے ہوئے سرے والی چھڑی سے اسے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: ’’سوار ہو جاؤ۔‘‘ میں سوار ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے خود کو دیکھا کہ میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی اونٹنی) سے (آ گے بڑھنے سے) روک رہا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تم نے شادی کر لی؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کنواری سے یا دوہاجو سے؟‘‘ میں نے عرض کی: دوہاجو سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(کنواری) لڑکی سے کیوں نہ کی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے، وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی۔’’ میں نے عرض کی: میری (چھوٹی) بہنیں ہیں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی ڈھارس بندھائے، ان کی کنگھی کرے اور ان کی نگہداشت کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم (گھر) پہنچنے والے ہو، جب پہنچ جاؤ تو احتیاط اور عقل مندی سے کام لینا۔‘‘ پھر پوچھا: ’’کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ (اونٹ) مجھ سے ایک اوقیہ (چاندی کی قیمت) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے اور میں صبح کے وقت پہنچا، مسجد میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ابھی پہنچے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنا اونٹ چھوڑو اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کرو۔‘‘ میں مسجد میں داخل ہوا، نماز پڑھی، پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ (چاندی) تول دیں، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وزن کیا، اورترازو کو جھکایا (اوقیہ سے زیادہ تولا۔) کہا: اس کے بعد میں چل پڑا، جب میں نے پیٹھ پھیری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جابر کو میرے پاس بلاؤ۔‘‘ مجھے بلایا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اونٹ (بھی) مجھے واپس کر دیں گے۔ اور مجھے کوئی چیز اس سے زیادہ ناپسند نہ تھی (کہ میں قیمت وصول کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اونٹ بھی واپس لے لوں۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنا اونٹ لے لو اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔‘‘