قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الرِّضَاعِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1466.07. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كُنَّا فِي مَسِيرٍ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ، إِنَّمَا هُوَ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ، قَالَ: فَضَرَبَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْ قَالَ: نَخَسَهُ، أُرَاهُ قَالَ: بِشَيْءٍ كَانَ مَعَهُ - قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَقَدَّمُ النَّاسَ يُنَازِعُنِي، حَتَّى إِنِّي لِأَكُفُّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا وَاللهُ يَغْفِرُ لَكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ: «أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا، وَاللهُ يَغْفِرُ لَكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: هُوَ لَكَ، يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ: وَقَالَ لِي: «أَتَزَوَّجْتَ بَعْدَ أَبِيكَ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «ثَيِّبًا، أَمْ بِكْرًا؟» قَالَ: قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: «فَهَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُضَاحِكُكَ وَتُضَاحِكُهَا، وَتُلَاعِبُكَ وَتُلَاعِبُهَا»، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: «فَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ افْعَلْ كَذَا وَكَذَا وَاللهُ يَغْفِرُ لَكَ»

مترجم:

1466.07.

ابونضرہ نے ہمیں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اور میں ایک پانی ڈھونے والے اونٹ پر (سوار) تھا۔ اور وہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ تھا۔ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ۔۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: اپنے پاس موجود کسی چیز سے ۔۔ مارا، یا کہا: کچوکا لگایا، کہا: اس کے بعد وہ لوگوں (کے اونٹوں) سے آ گے نکلنے لگا، وہ مجھ سے کھینچا تانی کرنے لگا حتیٰ کہ مجھے اس کو روکنا پڑتا تھا۔ کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم مجھے یہ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف فرمائے!‘‘ کہا: میں نے عرض کی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے۔ آپ نے (دوبارہ) پوچھا: ’’کیا تم مجھے وہ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہارے گناہ معاف فرمائے!‘‘ کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے (یہ بھی) پوچھا: ’’کیا اپنے والد (کی وفات) کے بعد تم نے نکاح کر لیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’دوہاجو (شوہر دیدہ) سے یا دوشیزہ سے؟‘‘ میں نے عرض کی: دوہاجو سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے کنواری سے کیوں نہ شادی کی، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی اور تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے؟‘‘ ابونضرہ نے کہا: یہ ایسا کلمہ تھا جسے مسلمان (محاورتاً) کہتے تھے کہ ایسے ایسے کرو، اللہ تمہارے گناہ بخش دے۔