قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابٌ فِي الْإِيلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْيِيرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ})

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1479.01. حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، يُحَدِّثُ قَالَ: مَكَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ، هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ، فَقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ، قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: وَاللهِ، إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ، فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللهِ، إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا، حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي: لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا، فَقُلْتُ لَهَا: وَمَا لَكِ أَنْتِ، وَلِمَا هَاهُنَا؟ وَمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ، فَقَالَتْ لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ، وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، قَالَ عُمَرُ فَآخُذُ رِدَائِي، ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ؟ فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَاللهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ، فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللهِ، وَغَضَبَ رَسُولِهِ، يَا بُنَيَّةُ، لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا، وَحُبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا، فَكَلَّمْتُهَا، فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ، حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ، قَالَ: فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا، وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ، وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ، ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ، فَأَتَى صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ، وَقَالَ: افْتَحِ افْتَحْ، فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ؟ فَقَالَ: أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ، اعْتَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ، فَقُلْتُ: رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ، ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي، فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ، وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ، فَأُذِنَ لِي، قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ، تَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا، وَعِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكَ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا، وَلَكَ الْآخِرَةُ

مترجم:

1479.01.

سلیمان بن بلال نے کہا: مجھے یحییٰ نے عبید بن حنین سے خبر دی کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا وہ حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے کہا: میں نے سال بھر  انتظار کیا، میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا مگر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ پاتا تھا، حتی کہ وہ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ نکلا، جب لوٹے تو ہم راستے میں کسی جگہ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لیے پیلو کے درخت کی طرف چلے گئے، میں ان کے انتظار میں ٹھہر گیا، حتی کہ وہ فارغ ہو گئے، پھر میں ان کے ساتھ چل پڑا، میں نے عرض کی: امیر المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے وہ کون سی دو خواتین تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا کر لیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ علیہما تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ایک سال سے اس کے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھا مگر آپ کے رعب کی وجہ سے ہمت نہ پاتا تھا۔ انہوں نے کہا:ایسا نہیں کرنا، جو بات بھی تم سمجھو کہ مجھے علم ہے، اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ لیا کرو، اگر میں جانتا ہوا تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہا: اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب ہم جاہلیت کے زمانے میں تھے تو عورتوں کو کسی شمار میں نہ رکھتے تھے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو نازل کیا، سو نازل کیا، اور جو (مرتبہ) انہیں دینا تھا سو دیا۔ انہوں نے کہا: ایک مرتبہ میں کسی معاملے میں لگا ہوا تھا، اس کے متعلق سوچ بچار کر رہا تھا کہ مجھے میری بیوی نے کہا: اگر آپ ایسا ایسا کر لیں (تو بہتر ہو گا۔) میں نے اسے جواب دیا: تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اور یہاں (اس معاملے میں) تمہیں کیا دلچسپی ہے؟ اور ایک کام جو میں کرنا چاہتا ہوں اس میں تمہارا تکلف (زبردستی ٹانگ اڑانا) کیسا؟ اس نے مجھے جواب دیا: ابن خطاب! آپ پر تعجب ہے! آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کے بارے آ گے بات کی جائے، جبکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں (اسی وقت) اپنی چادر پکڑتا ہوں اور اپنی جگہ سے نکل کھڑا ہوتا ہوں، یہاں تک کہ حفصہ کے پاس پہنچتا ہوں۔ جا کر میں نے اس سے کہا: بٹیا! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جواب دیتی ہو کہ وہ سارا دن ناراض رہتے ہیں۔ حفصہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ن‬ے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہیں۔ میں نے کہا: جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈرا رہا ہوں، میری بیٹی! تمہیں وہ (عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ا‬پنے رویے کی بنا پر) دھوکے میں نہ ڈال دے جسے اپنے حسن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے سے محبت پر ناز ہے۔ پھر میں نکلا حتی کہ ام سلمہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ے ہاں آیا، کیونکہ میری ان سے قرابت داری تھی۔ میں نے ان سے بات کی تو ام سلمہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ن‬ے مجھے جواب دیا: ابن خطاب تم پر تعجب ہے! تم ہر کام میں دخل اندازی کرتے ہو حتی کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے مابین بھی دخل دو؟ انہوں نے مجھے اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ جو (عزم) میں (دل میں) پا رہا تھا (کہ میں ازواجِ مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب دینے سے روک لوں گا) مجھے توڑ کر اس سے الگ کر دیا۔ چنانچہ میں ان کے ہاں سے نکل آیا۔ میرا ایک انصاری ساتھی تھا، جب میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے) غیر حاضر ہوتا تو وہ میرے پاس (وہاں کی) خبر لاتا اور جب وہ غیر حاضر ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے آتا۔ ہم اس زمانے میں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ سے ڈر رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر چڑھائی کرنا چاہتا ہے۔ اس (کی وجہ) سے ہمارے سینے (اندیشوں سے) بھرے ہوئے تھے۔ (اچانک ایک دن) میرا انصاری دوست آ کر دروازہ کھٹکھٹانے لگا اور کہنے لگا: کھولو، کھولو! میں نے پوچھا: غسانی آ گیا ہے؟ اس نے کہا: اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھما کی ناک خاک آلود ہو! پھر میں اپنے کپڑے لے کر نکل کھڑا ہوا، حتی کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانے میں تھے جس پر سیڑھی کے ذریعے چڑھ کر جانا ہوتا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام سیڑھی کے سرے پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا: یہ عمر ہے (خدمت میں حاضری کی اجازت چاہتا ہے)، تو مجھے اجازت عطا ہوئی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ساری بات بیان کی، جب میں ام سلمہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر (لیٹے ہوئے) تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (جسم مبارک) اور اس (چٹائی) کے درمیان کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے قریب کیکر کی چھال کا چھوٹا سا گٹھا پڑا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے قریب کچھ کچے چمڑے لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تمہیں کیا رلا رہا ہے؟‘‘ عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کسریٰ اور قیصر دونوں (کفر کے باوجود) اُس ناز و نعمت میں ہیں جس میں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لیے (صرف) دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت ہو۔‘‘