قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابٌ فِي الْإِيلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْيِيرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ})

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1479.04. وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا، وقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللهُ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4]؟ حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ، ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4]؟ قَالَ عُمَرُ: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ - قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ وَاللهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ، وَلَمْ يَكْتُمْهُ - قَالَ: «هِيَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ»، ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: أَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ، وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ - يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ. وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي، ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي، ثُمَّ نَادَانِي، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: مَاذَا؟ أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي، هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ، فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، ثُمَّ أَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ، فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ، قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ: «لَا»، فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ، لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللهِ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللهِ، إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمُ مِنْكِ، وَأَحَبُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «نَعَمْ»، فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ، فَوَاللهِ، مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ، إِلَّا أَهَبًا ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ اللهَ يَا رَسُولَ اللهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ، فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ: «أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا»، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ

مترجم:

1479.04.

معمر نے زہری سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں شدت سے خواہش مند رہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ان دو کے بارے میں سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو تو یقینا تمہارے دل آ گے جھک گئے ہیں‘‘ حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج (کا سفر) کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، (واپسی پر) ہم راستے کے ایک حصے میں تھے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اپنی ضرورت کے لیے راستے سے) ایک طرف ہٹ گئے اور میں بھی پانی کا برتن لیے ان کے ساتھ ہٹ گیا، وہ صحرا میں چلے گئے، پھر میرے پاس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی انڈیلا، انہوں نے وضو کیا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرو تو یقینا تمہارے دل جھک گئے ہیں؟‘‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ابن عباس! تم پر تعجب ہے! ۔۔۔ زہری نے کہا: اللہ کی قسم! انہوں (ابن عباس رضی اللہ تعالٰ عنہما) نے جو سوال ان سے کیا، وہ انہیں برا لگا اور انہوں نے (اس کا جواب) چھپایا بھی نہیں ۔۔ انہوں نے کہا: وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھما تھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بات سنانے لگے اور کہا: ہم قریش کے لوگ ایسی قوم تھے جو اپنی عورتوں پر غالب تھے، جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسے لوگ پائے جن پر ان کی عورتیں غالب تھیں، چنانچہ ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں سے سیکھنا شروع کر دیا۔ (مردوں کو پلٹ کر جواب دینے لگیں۔) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میرا گھر بالائی علاقے بنی امیہ بن زید کے محلے میں تھا، ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا، تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے اس کا جواب دینا بڑا ناگوار گزرا تو اس نے کہا: تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دوں؟ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے دیتی ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات تک پورا دن چھوڑ بھی دیتی ہے (روٹھی رہتی ہے۔) میں چلا، حفصہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ک‬ے ہاں گیا اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب دے دیتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے (پھر) پوچھا: کیا تم میں سے کوئی انہیں رات تک دن بھر کے لیے چھوڑ بھی دیتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو جاتی ہے کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ (بھی) اس پر ناراض ہو جائے گا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گی؟ (آیندہ) تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، تمہیں جو چاہئے مجھ سے مانگ لینا۔ تمہیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی (سوکن) تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے ۔۔ ان کی مراد حضرت عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا س‬ے تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ۔۔ انصار میں سے میرا ایک پڑوسی تھا۔۔ ہم باری باری (بالائی علاقے سے) اتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ ایک دن وہ اترتا اور ایک دن میں اترتا، وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبریں لاتا اور میں بھی (اپنی باری کے دن) اس کے پاس اسی طرح کی خبریں لاتا۔ اور (ان دنوں) ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ غسانی ہمارے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے گھوڑوں کو کھڑیاں لگا رہے تھے، میرا ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے عوالی سے) اترا، پھر عشاء کے وقت میرے پاس آیا، میرا دروازہ کھٹکھٹایا، پھر مجھے آواز دی، میں باہر نکلا تو اس نے کہا: ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ وہ اس سے بھی بڑا اور لمبا چوڑا (معاملہ) ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ تو ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑ گئی۔ میں تو (پہلے ہی) سمجھتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ (دوسرے دن) جب میں صبح کی نماز پڑھ چکا تو اپنے کپڑے پہنے، مدینہ میں آیا اور حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتی، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الگ تھلگ اس بالاخانے میں ہیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاہ فام غلام کے پاس آیا، اور اسے کہا، عمر کے لیے اجازت مانگو۔ وہ گیا، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا ذکر کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں چلا آیا حتی کہ منبر کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے، ان میں سے بعض رو رہے تھے، میں تھوڑی دیر بیٹھا، پھر جو کیفیت مجھ پر طاری تھی وہ مجھ پر غالب آ گئی۔ میں پھر غلام کے پاس آیا اور کہا: عمر کے لیے اجازت مانگو، وہ اندر داخل ہوا، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا ذکر کیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں پیٹھ پھیر کر مڑا تو اچانک غلام مجھے بلانے لگا، اور کہا: اندر چلے جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے۔ میں اندر داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا تو دیکھا کہ آپ بنتی کی ایک چٹائی پر سہارا لے کر بیٹھے تھے، جس نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیے تھے، میں نے عرض کی: کیا آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف (دیکھتے ہوئے) اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: اللہ اکبر۔اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں دیکھتے تو ہم قریش ایسی قوم تھے جو اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسی قوم کو پایا جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں، تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں (کی عادت) سے سیکھنا شروع کر دیا، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی پر برہم ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی۔ مجھے اس کا جواب دینا انتہائی ناگوار گزرا، اس نے کہا: تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دیتی ہوں؟ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے دیتی ہیں، اور ان میں سے کوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات تک چھوڑ بھی دیتی (روٹھ بھی جاتی) ہے۔ تو میں نے کہا: ان میں سے جس نے ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی ۔ کیا (یہ کام کر کے) ان میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو سکتی ہے کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ اس پر ناراض ہو جائے (اگر ایسا ہوا) تو وہ تباہ ہو گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں حفصہ کے پاس گیا اور اس سے کہا: تمہیں یہ بات کسی دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی (سوکن) تم سے زیادہ خوبصورت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! (کچھ دیر بیٹھ کر) بات چیت کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور میں نے سر اوپر کر کے گھر میں نگاہ دوڑائی تو اللہ کی قسم! اس میں تین چمڑوں کے سوا کچھ نہ تھا جس پر نظر پڑتی، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! دعا فرمائیے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر فراخی فرمائے۔ فارسیوں اور رومیوں پر وسعت کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ’’ابن خطاب! کیا تم کسی شک میں مبتلا ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان (کے حصے) کی اچھی چیزیں جلد ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لیے بخشش طلب کیجیے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (ازواج) پر سخت غصے کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ ایک مہینہ ان کے پاس نہیں جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا۔ (کہ بیویوں کی بات پر آپ کیوں غمزدہ ہوتے اور حلال چیزوں سے دور رہنے کی قسم کھاتے ہیں۔