اسلام دین فطرت ہے۔ بہت سےدیگرادیان کےبرعکس اس میں نکاح کےانتہائی تحفظ کےساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی تسلیم کی گئی ہےکہ بعض صورتوں میں میاں بیوی ایک دوسرےکےساتھ نباہ کرنےکےقابل نہیں ہوتے۔ بعض اوقات کسی وجہ سےایسی خلیج پیداہوجاتی ہےکہ مزیدنباہ کرناممکن نہیں رہتا۔ اس صورت میں سارےگھرانےکومسلسل چپقلش اورفسادکی اذیت میں مبتلارکھنےکی بجائےدونوں کواچھےطریقے سےعلیحدگی اختیارکرکےمثبت طریق پراپنی اپنی زندگی کےازسرنوآغازکاحق دیناضروری ہے۔ ابتدامیں دوسرےادیان کےحاملین کی طرف سےاسلام میں طلاق کےجائزہونےپرشدیدتنقیدکی گئی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ معترضین کی اکثریت اسلام کےفطری اصولوں کی برتری کی قائل ہوگئی۔ تقریباسب نےایک یادوسراطریقہ اختیارکرکےحق طلاق کواپنالیا۔ بعض نےاپنےدین میں نیافرقہ بناکےاسےاپنایااوربعض نےحکومتی قوانین کےذریعےسےاپنےہی دین کےاصولوں کومستردکردیا۔
اسلام واحدمذہب ہےجس نےطلاق کےلیے ایک باقاعدہ طریقہ کاردیاہے،جودانائی اورشائستگی پرمبنی ہے،اس میں تمام فریقوں کےحقوق کےبارےمیں صراحت کردی گئی ہےاوران کےتحفظ کااہتمام کیاگیاہے۔ قرآن کریم اورفرامین رسول اللہﷺ کی روسےطلاق کاصحیح طریقہ یہ ہےکہ سب سےپہلےطلاق دینےکےلیے صحیح وقت ملحوظ رکھ جائےاوروہ وقت عورتوں کی حالت طہر(جب عورت حالت حیض میں نہ ہو)ایساطہرجس میں میاں بیوی نےمجامعت نہ کی ہو۔ اس کامقصدیہ ہےکہ عورت کسی الجھن میں پڑےبغیراسی طہرسےاپنی عدت کاشمارکرسکے۔ قرآن مجیدنےعدت کاحکم دیتےہوئےفرمایاہے۔ (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا)’’اےنبی!جب آپ لوگ عورتوں کوطلاق دیں توان کوان کی عدت پرطلاق دیں اورعدت کوگنتےرہیں اوراللہ تعالیٰ کاتقویٰ اختیارکریں جوتمہارارب ہےاوران عورتوں کوان کےگھروں سےنہ نکالیں اوروہ بھی نہ نکلیں مگریہ کہ کسی صریح بےحیائی کاارتکاب کریں، یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ جوکوئی ان حدوں سےباہرنکلےتواس نےاپنی ذات پرظلم کیا، آپ نہیں جانتےشایداللہ اسکےبعدکوئی نیامعاملہ(راستہ)نکال دے۔(الطلاق65/1)
اس طرح اگرعدت کےاندررجوع ہوجائےگاتوٹوٹتاہواگھربچ جائےگا۔ اگررجوع نہ ہواتوعدت گزرنےپرعلیحدگی ہوجائےگی لیکن دوبارہ نکاح سےگھربسنےکی گنجائش باقی رہےگی ۔ دوسری بار طلاق دینےکےلیے بھی یہی طریقہ اختیار کرنےکاحکم دیاگیاہے۔ اس باربھی پھرسےگھربس جانےکاراستہ کھلارہےگا۔ اللہ تعالیٰ نے(لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا)’’شایداللہ اس کےبعدکوئی نیاراستہ نکال دے‘‘میں اسی گنجائش کی طرف اشارہ کیاہے۔ اسلام چونکہ ہرممکن حدتک گھرکوبناناچاہتاہےاس لیے نکاح کی بحالی (رجوع )کےحق کودونوں فریقوں میں بانٹنےکی بجائے،جس سےعدم اتفاق کاامکان بڑھ جاتاہے،یہ حق مردکوتفویض کیاہے۔ اس کےبارےمیں یہ توقع ہےکہ وہ زیادہ ذمہ داری ،تحمل اورعقلمندی سےکام لےگا۔ چونکہ وہی گھرکاسربراہ ہےاس لیے شادی کونبھانےکی زیادہ ذمہ داری بھی اسی پرعائدہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کےفرمان(فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ) ’’پھراچھےطریقےسےروک لیناہے۔ ‘‘(البقرۃ 2/229)اور(وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)’’اوران کےخاونداگراصلاح احوال چاہتےہیں تووہ اس مدت میں انہیں واپس لینےکےزیادہ حق دارہیں‘‘(البقرۃ:2/228)میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ شادی کوبحال کرکےآگےچلانےکا ماحول برقراررکھنےکےلیے یہ بھی کہاگیاکہ جوکچھ بیوی کوبطورحسن سلوک دیاگیاہےطلاق کےوقت وہ نہ چھیناجائے۔ اگردوسری کوشش کےباوجودبھی شادی کابرقراررہناممکن نہ ہواورمردتیسری باربھی طلاق ہی کافیصلہ کرلےتویہ تیسری طلاق بائنہ (دونوں کےدرمیان حتمی تفریق کرنےوالی)ہوگی۔ اب یہ عورت پہلےمرد کےنکاح میں دوبارہ نہیں آسکےگی۔ ہاں اگرگھربسانےکی نیت سےوہ کسی اورکےساتھ شادی کرلےاوروہ اپنےنئےخاوندکےساتھ باقاعدہ طورپرایک بیوی کی حیثیت سےزندگی شروع کردے،دونوں میاں بیوی ازدواجی زندگی کےتمام تقاضےپورےکریں، اورپھرکسی وجہ سےدونوں میں علیحدگی ہوجائےیادوسراخاوندفوت ہوجائےتووہ عورت پھرسےپہلےخاوندکےساتھ نکاح کی مجازہوگی۔ اس تیسری بار کی طلاق کےحوالےسے قرآن مجیدنےفرمایا۔ (فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ )’’پھراگروہ اسے(تیسری)طلاق دےدےتواس کےبعدوہ اس کےلیے حلال نہیں ہوگی ،یہاں تک کہ اس کےعلاوہ کسی اورخاوندسےنکاح کرے۔ ‘‘(البقرۃ230:2)اس میں لفظ’’زوجا‘‘اہم ہے،اس سےتھوڑےسےوقت کاتیس مستعار(کرائےکا سانڈجس کےساتھ عارضی نکاح کیاجاتاہےاورجومتعہ سےبھی بدترصورت ہے) مرادنہیں لیاجاسکتا۔’’تیس مستعار‘‘کی اصطلاح رسول اللہﷺ نےحلالہ کرنےوالےکےلیے استعمال فرمائی ہے۔ (سنن اب ماجہ،حدیث:1936،والمستدرک للحاکم :2/199،198،والسنن الکبریٰ للبیہقی:7/208)یہ فرماکہ آپﷺ نےواضح فرمادیاہےکہ ایساشخص ’’زوج‘‘نہیں ہوتا۔
اگرمیاں بیوی کامزاج بالکل نہیں ملتااورشادی کوحتمی طورپرختم کرنےہی کافیصلہ ہوجاتاہےاورمختصرعرصےمیں یہ مقصدحاصل کرناضروری ہےتواس کےلیے یہ طریقہ ہےکہ پہلےطہرکےبعدایک طہرگزرنےدے، پھرالگ الگ دومزیدطہروں میں اسےطلاق دے۔ یہ بات کتاب الطلاق کےپہلےباب کی احادیث میں مفصل بیان ہوئی ہے۔ اس طریقےمیں بھی صلح اوردوبارہ رشتہ جوڑکرآگےبڑھنےکی گنجائش موجودرہتی ہے۔ اس میں عورت اورمرددونوں کےحوالےسےمردکےاقدام طلاق کےنقصان کومحدودکرنےکااہتمام موجودہے۔ عورت کےلیے یہ آسانی بھی ہےکہ وہ کسی مشکل کےبغیرعدت کوشمارکرسکتی ہے۔
یہ انسانی کمزوری ہےکہ وہ جلدبازی یاجذباتیت یاایسےہی کسی سبب سےمقررطریقوں سےانحراف کرگزرتاہے۔ ایک اچھانظام قانون اس طرح کی غلطیوں کےحوالےسےبھی ایسےضوابط بناتاہےکہ بنیادی اہداف کاتحفظ ہوسکے، اورضررکادائرہ کم سےکم کیاجاسکے۔ طلاق کےحوالےسےجوغلطیاں ہوسکتی ہیں ان میں سب سےاہم یہ ہےکہ طلاق حالت طہرکی بجائےحالت حیض میں دےدی جائے۔ یہی غلطی حضرت عبداللہ بن عمرؓ سےہوئی ۔ رسول اللہﷺ اس پرسخت ناراض ہوئےاوراس کوایک طلاق شمارکرتےہوئےعبداللہ بن عمرؓ کواپنااقدام واپس لینے(رجوع کرنے)اوراس کےبعدآئندہ کےتمام مراحل اسلام کےبتائےہوئےطریقےسےطےکرنے کاحکم دیا۔
دوسری غلطی اوراس کاسبب بھی غصےکی شدت اورجلدبازی ہوتی ہے کہ انسان تین یاتین سےبھی زائدطلاقیں ایک ساتھ دینےکااعلان کردے۔ یہ ایسی غلطی ہےکہ اگراس کونافذکردیاجائےتوطلاق دینےوالےکےعلاوہ بیوی اوراگربچےہوں توان کوسخت نقصان پہنچتاہے۔ اوراس کےمداوےکی کوئی بھی صورت باقی نہیں بچتی۔ اس میں ان بچوں کاتوکوئی قصوربھی نہیں ہوتا۔ اسلا م نےاس غلطی کےنقصان کادائرہ محدودکرنےکےلیے اسےایک طلاق قراردیاہے۔ اس سلسلےمیں قرآن مجیدکےالفاظ اورصحیح احادیث بالکل واضح ہیں۔ الطلاق مرتان سےواضح طورپردودفعہ کی علیحدہ علیحدہ طلاقیں مرادہیں۔ عرب لغت میں ’’مرتان‘‘سےمراد،مرة بعدمرة(ایک باراس کے بعددوسری بار)ہے۔ لسان العرب میں سنعذبهم مرتين کامعنی يعذبون بالايثاق والقتل ،وقيل:بالقتل وعذاب القبر بتایاگیاہے۔ اس آیت کامعنی بیان کرتےہوئےعلامہ زمخشری کہتےہیں۔ (الطلاق بمعنى التطليق كالسلام بمعنى التسليم ،ائ التطليق الشرعى تطليقة بعدتطليقة على التفريق،دون الجمع والارسال دفعة واحدة،ولم يردبالمرتين التثنية والكن التكوير)’’طلاق ،طلاق دینےکےمعنی میں ہےجس طرح سلام ،سلام کہنےکےمعنی میں ہے،یعنی شرعی طورپرطلاق دینایہ ہےکہ الگ الگ ،اکٹھاکیےاورایک ہی دفعہ آگےچلائےبغیرایک کےبعددوسری طلاق دی جائے(اللہ تعالیٰ نے)مرتین سےتثنیہ (دوطلاقیں )مرادنہیں لیابلکہ دوسری باری طلاق دینامرادلیاہے۔‘‘(الکشاف :1/273)بالکل یہی بات مولانااشرف علی تھانوی نےکہی ہے: ان قوله تعالى،الطلاق مرتان،معناه مرة بعدمرة فالتطليق الشرعى على التفريق دون الجمع والارسال (حاشية العلامة السندى على السنن النسائى بشرح جلال الدين السيوطى،تحت حديث:3404ط دارالمعرفة،لبنان)
قرآن ہی میں اس کی مثالیں بھی موجودہیں،مثلاکہاگیاہے۔ (أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ) ’’کیایہ لوگ دیکھتےنہیں کہ ان کوآزمائش میں ڈالاجاتاہےہرسال میں ایک مرتبہ یادومرتبہ۔ (التوبۃ126:9)یہاں مرتین سےواضح طورپرپورےسال کی مدت میں الگ الگ دورمرتبہ کی آزمائش مرادہے۔ اسی طرح قرآن مجیدمیں ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)’’اےایمان والو!تمہارےمملوکہ غلام اورتمہارےنابالغ بچے تین باراجازت لےکرتمہارےپاس آیاکریں۔(النور58:24)اس میں تین الگ اوقات میں اجازت لینامرادہےنہ کہ ایک ہی گھڑی میں تین اوقات کااجتماع۔ مرتان (دومرتبہ)اورثلاث مرات(تین مرتبہ)میں تفریق کامفہوم حتمی طورپرشامل ہے۔
امام رازی نےآیت کےبالکل یہی معنی بیان کیےہیں: (ان الطلاق المشروع متفرق لان المرات لاتكون الابعدتفرق بالاجماع)’’مشروع طلاق یہ ہےکہ الگ الگ طلاق دی جائےکیونکہ ’’مرات‘‘بالاجماع تفرق کےبعدہی ممکن ہے۔‘‘قاضی ثناءاللہ پانی پتی اسی کوقیاس کےمطابق بتاتےہیں۔ (وكان القياس ان لاتكون التطليقتان المجتمعان معتبرة شرعا)قیاس کاتقاضایہ ہےکہ اکٹھی دی گئی دوطلاقیں شرعامعتبرنہ ہوں۔ (تفسیرمظہری ،البقرۃ2/229)آیت سےیہ واضح ہےکہ اللہ تعالیٰ نےمردکوالگ الگ طلاقیں دینےہی کااختیاردیاہے۔ جب جمع کرنےکااختیارہی نہیں دیاگیاتوآن واحدمیں دی جانےوالےتین طلاقیں کس طرح تین واقع ہوجائیں گی!
بعض حضرات نےکہاکہ ’’الطلاق مرتان‘‘سےمرادیہ نہیں کہ دوطلاقیں الگ الگ دی جائیں بلکہ یہ مرادہےکہ دوطلاقیں رجعی ہیں۔ اگریہی معنی مرادلیاجائےتوجب خاوندکوپہلی دومرتبہ کی طلاقوں کےساتھ رجعت کاحق قرآن نےدیاہےتواس حق کوچھین کرمعصوم بچوں سمیت سارےخاندان کوتباہ کرنےکاحق کسی اورکوکہاں سےحاصل ہواہے!
بیک وقت تین طلاقوں کوتین قراردینےوالوں کی دلیل یہ ہےکہ حضرت عمرنےایساکیااوراس پرصحابہ کااجماع ہوا۔ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہےجوباب ’’طلاق الثلاث‘‘میں تین طرق سےروایت کی گئی ہے۔(حدیث3673۔3675)اس میں حضرت ابن عباسؓ نےروایت کیاہےکہ رسول اللہﷺ ابوبکراور حضرت عمرؓ کی خلافت کےابتدائی دوسالوں میں تین طلاقیں ایک شمارہوتی تھیں، پھرحضرت عمرنےکہاجس کام میں لوگوں کےلیے تحمل اورآہستہ روی تھی اس میں انہوں نےعجلت شروع کردی ہے۔ کتنااچھاہوہم ان پراسےنافذکردیں۔ اس کےبعدانہوں نےاسےایک ساتھ (یعنی تین طلاقوں کو)ان پرنافذکردیا۔
اس حدیث میں چندچیزیں بالکل واضح طورپربیان ہوئی ہیں:(الف)لوگوں کےلیے حکم یہی تھاکہ میں جلدی نہ کریں ایک ہی طلاق دیں، یاالگ الگ طہروں میں ایک ایک کرکےطلاق دیں۔ اگرکوئی شخص جلدبازی کرکےایک ساتھ تین طلاقیں دےدیتاتوعہدنبویﷺ،ابوبکرصدیقکےعہدخلافت اورحضرت عمرکی امارت کےپہلےدوسالوں میں ان کی تین شمارنہ کیاجاتاتھا۔ (ب)حضرت نےدیکھاکہ لوگ تحمل اورآہستہ روی کےحکم پرعمل ہی نہیں کرتے،ایک مجلس میں ایک سےزیادہ بارطلاق کےالفاظ دہرانےکواللہ کےحکم کی خلاف ورزی ہی نہیں گردانتے۔ جس معاملےمیں خوب غوروخوض اورپورےتحمل سےکام لیناضروری ہےاس میں عجلت برتتے ہیں، تواس غرض سےکہ لوگ طلاق کاوہی اصل طریقہ اختیارکریں جس کی رسول اللہﷺ سختی سےتلقین فرماتےتھے، حضرت عمرنےاس بارےمیں صحابہ سےمشورہ کیاکہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کوتین کےطورپرہی کیوں نہ نافذکردیاجائے۔ اورپھرآپ نےایساہی کیا۔
یہ حقیقت ہےکہ صحابہ کی اکثریت نےاسےوقت کی ضرورت سمجھتےہوئےاس تربیتی اورانتظامی حکم کوقبول کیا،لیکن اس پراجماع نہ ہوا،نہ بعدکےکسی عہدمیں اس پراجماع ہوا۔ صحابہ میں سےحضرت علی،عبداللہ بن مسعود،عبدالرحمٰن بن عوف اورزبیربن عوامان کےبعدتابعین میں عطاء،طاوس اورعمروبن دینار اوربعدکےمتعدداہل علم:مثلامحمدبن وضاح ،قرطبہ کےعلماء:محمدبن تقی بن مخلد،محمدبن عبدالسلام خشیاسی کےقائل تھےکہ ایک باردی ہوئی ایک سےزیادہ طلاقیں دراصل ایک بارکی طلاق ہےجس کےبعدرجوع کاحق موجودرہتاہے۔ (فتح الباری،الطلاق ،باب من جوزالطلاق الثلاث)ظاہریہ اوردوسرےکئی علماءاسےایک ہی طلاق قراردیتےہیں ۔ ان کےنزدیک لفظ(کےتکرار)کااس میں کوئی اثرنہیں۔ (قال اهل الظاهروجماعة:حكمه حكم الواحدة ولاتاثيرللفظ فى ذلك)بداية المجتهد:2/104)اہل بیت میں سےاکثربشمول امام زیدبن علی اسی کےقائل ہیں۔ (نیل الاوطار:6/260،ط:موسۃ التاریخ العربی)محمدبن اسحاق ،خلاس بن عمرو،حارث عکلی ،داؤدبن علی اوران کےاصحاب(ظاہریہ)امام مالککےمتعددشاگرداورکئی حنفی علماءبھی اسی کےقائل رہے(اعلام الموقعين :3/46،ط:دارالفكر)حجاج بن ارطاۃ اورمحمدبن مقاتل(حنفی)کایہی نقطہ نظرتھا۔ (شرح صحيح مسلم للنووى:10/104)
حضرت عمرکےاپنےالفاظ واضح طورپراس بات پردلالت کرتےہیں کہ ان کےاجتہادی اقدام سےپہلےایک مجلس کی ایک سےزیادہ طلاقوں کوزیادہ طلاقوں کی صورت میں کبھی نافذکیاگیاتھا۔ یہ وہی بات ہےجس کی حضرت ابن عباسؓ نےاسی حدیث میں واضح طورپرخبردی ہے۔ بعض حضرات ابن عباس ؓ کی روایت کوبیک وقت قبول بھی کرتےہیں اورمستردبھی۔ وہ اسی بات کوجوابن عباسؓ نےحضرت عمر کےحوالےسےبیان کی، اپنی بنیادی دلیل کےطورپرلیتےہیں اوریہ بھی کہتےہیں کہ حضرت عمر کےاس اجتہادپرصحابہ کااجماع ہوگیاتھا(جونہیں ہواتھا) اوراسی حدیث کےپہلےحصےکوکہ رسول اللہﷺ ،ابوبکرکےدوراورحضرت عمرکےدورکے پہلےدوسالوں میں تین طلاقوں کوایک ہی سمجھاجاتاتھا،یہ کہہ کرمستردکردیتےہیں کہ اس کےراوی حضرت ابن عباسؓ کافتوی اسکےخلاف ہےاس لیے اس روایت کوقبول نہیں کاجاسکتا۔(تفہیم القرآن:5/559)صاحب تفہیم القرآن نےحضرت ابن عباس کی روایت کےبارےمیں یہ الفاظ استعمال فرمائےہیں لیکن یہ رائےکئی وجوہ سےقابل قبول نہیں۔ موصوف نےاپنی بات بڑھانےکےلیے حضرت ابن عباسؓ کی روایت کوان کی رائےقراردےدیا۔ حقیقت یہی ہےکہ کسی بھی راوی کی روایت کےخلاف اس کی رائےکااعتبارنہیں ہوتا۔ اگررائےمستردکرنی ہےتوجسےآپ حضرت ابن عباسؓ کافتوی قراردےرہےہیں اسی کومستردفرمائیں کہ صحابی کےاجتہادمیں غلطی کاامکان تسلیم کیاجاتاہے،اس کی دیانت وامانت پرانگشت نمائی نہیں ہوسکتی۔ ان کےخلاف سےاختلاف ہوسکتاہے، ان کی روایت کومستردکیاجاسکتا۔پھرروایت کاوہ حصہ جسےیہ حضرات قبول فرماتےہیں اورمولانامودودی نےبھی حضرت ابن عباسؓ کی روایت مستردکرنےکےبعداسی کوبطوردلیل پیش کیاہےلیکن اس میں بھی خودحضرت عمر کےاپنےالفاظ میں یہ دونوں باتیں موجودہیں کہ پہلےایک مجلس کی تین طلاقیں نہ سمجھی جاتی تھیں ،حضرت عمرنےاب تین قراردینےکےلیے پہلےاپنی خواہش اوررائےکااظہار کیااورپھرتین قراردےدیں۔ مجھےمعلوم نہیں کہ حضرت عمرکےاس اقرارکےباوجودکہ یہ رائےان کی ہےاوراب سےنافذالعمل ہوگی، مولانامودودی کےنزدیک ان کی بھی خبرہی مستردہوگی یاان کااجتہاد؟ویسےتویہ بالکل صحیح سندسےدی گئی خبرہی ہےجسےماننابہت گراں گزررہاہے۔
تمام صحیح اورقابل اعتمادروایات کوسامنےرکھاجائےتویہ حقیقت سامنےآتی ہےکہ جس طرح حضرت ابن عباس اورحضرت عمرکےالفاظ سےظاہرہوتاہےکہ حضرت عمرکےحکم سےپہلےایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کوایک ہی شمارکیاجاتاتھا۔ جن حضرات نےاورمولانامودودی بھی ان میں شامل ہیں، بعض احادیث سےایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کوتین شمارکرنےکااستدلال کیاہےانہوں نےیاتوضعیف احادیث سےاستدلال کیاہےیاحدیث کےالفاظ میں ’’ایک ساتھ‘‘کالاحقہ اپنی طرف سےشامل کردیاہے، مثلا:سنن الكبرى للبيهقى:7/330،سنن الدارقطنى:4/20،حديث3929،اورمعرفة السنن والآثار:11/36حديث :14664/14665میں حضرت ابن عمرؓ سےروایت کردہ الفاظ یارسول اللہ!اگرمیں تین طلاقیں دےدیتاتوکیا میرےلیےرجوع کرناجائزہوتا؟آپ نےفرمایا:’’نہیں،وہ تم سےجداہوجاتی اور(یہ کام)گناہ بھی ہوتا۔‘‘یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کےراویوں میں شعیب بن رزیق غلطیوں کاارتکاب کرنےوالاراوی ہے۔ جبکہ عطاءخراسانی کوامام بخاری ،شعبہ اورابن حبان نےضعیف کہاہے،حضرت سعیدبن مسیب نےاسےجھوٹاقرار دیاہے۔ اس حصےکابخاری اورمسلم کی صحیح روایت پراضافہ کیاگیاہے۔ اصل روایت میں اس طرح کےالفاظ ہی موجودنہیں۔ اس کےعلاوہ سوال کےان الفاظ(لوانى طلقتهاثلاثا)’’اگرمیں اسےتین طلاقیں دےچکاہوتا‘‘میں ایک ساتھ تین طلاقوں کاکوئی ذکرنہیں۔ استدلال کرنےوالوں نے’’ایک ساتھ‘‘کےالفاظ اپنی طرف سےشامل کردیےہیں جوصراحتاایسامن گھڑت اضافہ ہےجس سےالفاظ کامفہوم یکسربدل جاتاہے۔
ان حضرات نےمتعداد ایسی روایات سےاستدلال کرنےکی کوشش کی ہےجن میں مطلقا’’طلاق البتة‘‘یا’’ثلاثا‘‘کےالفاظ ہیں جبکہ خودانہی احادیث مبارکہ کےمختلف طرق سےثابت ہےکہ اس قسم کےالفاظ تیسری طلاق یاالگ الگ دی گئی کل طلاقوں کی تعدادکےحوالےسےاستعمال کیےجاتےہیں:مثلاصحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیسؓ کےحوالےسےیہ الفاظ ہیں(أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ)کہ ابوعمروبن حفص نےانہیں قطعی طلاق دےدی‘‘(حدیث:3697)حضرت فاطمہ بن قیسؓ نےاس بات کواس طرح بیان کیا(قَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا)میرےخاوندنےمجھےتین طلاقیں دیں۔‘‘(حدیث:3709)اورپھرصحیح مسلم ہی میں ان الفاظ کی صراحت موجودہے(فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ)انہوں نےان (فاطمہ بنت قیس ؓ)کوتین میں سےآخری طلاق دےدی۔‘‘(حدیث:3702)
حضرت مولاناسیدانورشاہ کاشمیری نےبخاری میں حضرت عویمرعجلانی کی لعان والی روایت کےالفاظ’’طلقهاثلاثا‘‘کی وضاحت کرتےہوئےلکھاہے: (فبان التطابق بين الحكاية والمحكى عنه فى الصفة ايضاليس بضرورى،يمكن ان يكون طلقهافى الخارج متفرقا،وعبرعنه الراوى ثلاثا،اخذابالحاصل ،فلابعدفيه)’’کسی واقعہ اوراس کےبیان کےدرمیان واقعہ ہونےکی کیفیت اورصفت میں مطابقت ضروری نہیں یہ ہوسکتاہےکہ عجلانی نے باہرتین طلاقیں الگ الگ دی ہوں اوربیان کرنےوالےنےحاصل کلام کولیتےہوئےانہیں (محض)تین کہہ دیاہو۔ اس میں کوئی بعدنہیں۔‘‘(فیض الباری،حدیث:5259)
’’ان حضرات کادوسرااستدلال حضرت عویمرعجلانیکےاسی واقعےسےہےجسےحضرت سہل بن سعدنےروایت کیاہے۔ واقعہ یہ ہےکہ رسول اللہﷺ کےسامنےانہوں نےاوران کی بیوی نےلعان کیا۔ لعان کےبعدطلاق کےبغیرمیاں بیوی میں حتمی علیحدگی ہوجاتی ہے۔ حضرت عویمراس وقت شدشدغصےکے عالم میں تھے، اس سخت جذباتی تناؤکےعالم میں انہوں نےغصےکےاظہارکےلیے یہ کہا(كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)’’اےاللہ کےرسول!اگرمیں اس عورت کواپنےپاس رکھوں تواس کامطلب یہ ہوگاکہ میں نےاس پرجھوٹاالزام لگایاتھا۔ پھررسول اللہﷺ کاحکم آنےسےپہلےہی انہوں نےاسے(بیوی کو)تین طلاقیں دےدیں۔‘‘
استدلال کرنےوالوں کاخیال ہےکہ رسول اللہﷺکوچاہیےتھاکہ ان کی اس شدیدجذباتی کیفیت کےباوجود انہیں تفصیل سےمسئلہ سمجھاتےاوران کی غلطی کوواضح فرماتے،چونکہ آپ نےایسانہیں کیا،لہذاایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ یہ حضرات اتنابھی غورنہیں کرتےکہ ایک ساتھ تین طلاقوں کورسول اللہﷺغلط قراردےچکےتھےاوریہ صحیح سندسےمنقول ہے۔ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتےتھےکہ ان تین سےایک طلاق واقع ہوئی ہے،لہذاچاہوتورجوع ہوسکتاہے،کیونکہ لعان کےبعدشرعاان کےدرمیان اب توکسی صورت یکجائی نہیں ہوسکتی تھی۔ درحقیقت یہ موقع تفصیل سےسمجھانےکاتھاہی نہیں امام سرخی نےالمبسوط میں لکھاہے(انماترك الانكارعلى العجلانى فى الوقت شفقة عليه،لعلمه بانه لشدة الغضب ربمالايقبل قوله فيكفر،فاخرالانكارالى وقت آخر،وانكرعليه فى قوله فلاسبيل لك عليها)’’رسول اللہﷺ نےاس وقت عویمرعجلانیکونہیں ٹوکا،یہ بات شفقت کی بناپرتھی کیونکہ شدت غضب کی بناپرشایدوہ آپﷺ کی بات (فوری طورپر)قبول نہ کرپاتےاورکافرہوجاتے،اس لیے آپ نےٹوکنےکادوسرےوقت کےلیے موخرکردیااوراس حوالےسےاتنافرمادیا:’’اب تمہاراس پرکوئی اختیارنہیں۔‘‘(المسبوط الطلاق ،ص:8،داراحیاءالتراث العربی)حقیت یہ ہےکہ آپ کااتنافرماناہی کافی ہےکہ ’’اب تمہارااس پرکوئی اختیارنہیں‘‘اس فرمان کےہوتےہوئےسارااعتراض اوراستدلال بےکارہے۔
ان حضرات نےحضرت عبادہ بن صامت سےمروی اس حدیث سےبھی استدلال کیاہےکہ ان کےدادانےاپنی بیوی کوایک ہزارطلاقیں دےدیں۔ اس کےبیٹوں نےجاکررسول اللہﷺ سےسوال کیاتوآپ ﷺنےفرمایا’’تمہارےباپ نےاللہ کاخوف نہیں کیاکہ وہ اس کےلیے کوئی نکلنےکی راہ بناتا؟وہ عورت غیرمسنون طریق پرتین طلاقوں کےذریعےسےاس الگ ہوگئی اورنوسوستانوےکاگناہ اس کی گردن پرباقی رہا۔‘‘
ان حضرات نےحضرت عبادہ بن صامتسےمروی اس حدیث سےبھی استدلال کیاہےکہ ان کےدادانے اپنی بیوی کوایک ہزارطلاقیں دےدیں۔ اس کےبیٹوں نےجاکررسول اللہﷺسےسوال کیاتوآپﷺنے فرمایا’’تمہارےباپ نےاللہ کاخوف نہیں کیاکہ وہ اس کےلیے کوئی نکلنےکی راہ بناتا؟وہ عورت غیرمسنون طریق پرتین طلاقوں کےذریعےسےاس سےالگ ہوگئی اورنوسوستانوےکاگناہ اس کی گردن پرباقی رہا۔‘‘یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے۔ اس کاراوی عبیداللہ بن ولیدالوصافنی انتہائی ضعیف بلکہ منکرالحدیث اورمتروک عبدالرزاق میں بھی ہے۔ اس نےجس داؤدابن ابراہیم کانام لےکراس سےروایت کی ہےوہ مجہول ہے۔ یہ روایت ایک اورسندسے مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے۔ اس کےبارمیں کوثری صاحب بھی کہتےہیں کہ اس میں بہت سی ’’علل‘‘ہیں۔ اصل معاملہ اس سےبھی زیادہ سنگین ہے۔ اس کےایک راوی تووہی ابرہیم ہیں جومجہول ہیں۔ اس سندمیں ان سےنیچےیحییٰ بن علاءہےجوکذاب ہے(تفصیل کےلیے دیکھے:سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ :3/354۔356،رقم :1211)افسوس اس بات پرہےکہ بڑےبڑےنامورعلمااس بات کوچھپاتےہوئےکہ یہ انتہائی ضعیف روایات ہیں، انہیں ابن عباس ؓکی صحیح روایت کورد کرنےکےلیے استعمال کرتےہیں۔
دوسری اہم حقیقت جوحضرت ابن عباسؓ کی روایت اورموطاوغیرہ میں مروی مختلف صحابہ کےآثارسےسامنےآتی ہےیہ ہےکہ جب حضرت عمرنےصحابہ کی توجہ اس بات کی طرف دلائی کہ طلاق کاجوطریقہ رسول اللہﷺ نےتعلیم فرمایاجس میں ’’تحمل اورآہستہ روی‘‘تھی، اس کوچھوڑکرلوگوں نےجلدبازی شروع کردی ہ۔ تواکثرصحابہ نےان سےاتفاق کیا۔ رسول اللہﷺکےبتائےہوئےطریقےسےاسی انحراف کوروکنےکےلیے حضرت عمرنےایک ساتھ دی گئی طلاقوں کوایک قراردینےکی جوسہولت موجودتھی اس پرعمل ردرکردیا،اورطلاق دینےوالوں کےاپنےالفاظ کوان پرنافذکرناشروع کردیا۔ آپ کامقصدیہ تھاکہ اس کےنتیجےمیں لوگ وہی تحمل آہستہ روی اوراحتیاط اختیارکرنےپرمجبورہوجائیں گےجسےوہ ترک کرچکےہیں۔
اکثرصحابہ کرامحتی کہ حضرت عبداللہ بن عباس اورعبداللہ بن مسعودجورسول اللہﷺکےطریق پرعمل کرتےہوئےایک مجلس کی تین طلاقوں کےایک ہونےکافتویٰ دیتےتھے،حضرت عمرکےبنیادی مقصدسےاتفاق کرتےتھے۔ انہوں نےجہاں بکمال دیانت یہ بات آگےپہنچائی کہ رسول اللہﷺکاطریقہ کیاتھا، وہیں زیادہ سنگین انحراف کےمرتکب لوگوں پرحضرت عمرکےاجتہادپرمبنی نیاتعزیری قانون نافذکرنےاور اس کےمطابق فتویٰ دینےمیں حضرت عمرکاساتھ دیا۔ جاہلی دورمیں لاتعدادطلاقیں دی جاسکتی تھیں، اسلام نےان کی حدمقررکردی کہ دوباررجعی طلاق ہوگی اورتیسری اورآخری باربائنہ طلاق۔ جس شخص نےاسلام کی تعلیمات سےاس حدتک انحراف کیاکہ اس نےآٹھ طلاقیں دےدیں، تواس سےحضرت عبداللہ بن مسعود نےپوچھا:تمہیں کیافتویٰ دیاگیاہے؟انہیں معلوم تھاکہ فتویٰ دینےوالےزیادہ ترلوگ اب حضرت عمرکےحکم کےمطابق فتوی دیتےہیں۔ اس نےبتایاکہ مجھ سےکہاگیاہےکہ تمہاری بیوی تم سےجداہوگئی ہے۔ حضرت ابن مسعودنےاس فتوےکی تصدیق کردی۔(المؤطاللام مالک:2/550)
ایک اورشخص نےان سےآکرکہاکہ میں نےاپنی بیوی کو99طلاقیں دےدی ہیں۔ یہ سنگین ترین انحراف تھا۔ انہوں نےکہاوہ تین کےذریعےسےتم سےجداہوگئی اورباقی ساری ظلم ہیں، یعنی ان کاگناہ الگ سےہوگا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ:4/63حدیث:17792)
حضرت عثمان سےایک شخص نےآکرکہاکہ اس نےاپنی بیوی کوہزارطلاقیں دی ہیں۔ انہوں نےحضرت عمروالافتویٰ اسےبتادیا(فتح القدیرلکمال بن الہمام:3/470)
حضرت علیکےسامنےایساہی سوال آیاتوآپ کاجواب تھا:تین طلاقوں سےوہ تم سےجداہوگئی باقی ساری طلاقیں اپنی باقی بیویوں کوبانٹ دے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ :4/63:حدیث17796۔17804)
یہ صراحتا اسی تعزیر پر مبنی جوابات ہیں جس کا فیصلہ حضرت عمر نے کیا تھا۔ موطا امام مالک میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیں، پھر ابن عباس ؓ سے مسئلہ پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا: تین طلاقوں کے ذریعے سے وہ تم سے جدا ہو گئی، باقی 97 سے تو نے اللہ کی آیات کوکھیل بنایا ۔ (المؤطا للإمام مالك:2/550) اسی طرح سنن ابو داود میں مجاہد سے مروی ایک واقعہ ہے کہ وہ حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں،ابن عباس ؓ سن کر خاموش رہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ اب یہ اس کی بیوی اسے پلٹا دیں گے (یعنی حضرت ابن عباس ؓ کا اپنا مسلک اور فتوی بھی تھا، لیکن کچھ دیر توقف کے بعد) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کرتا ہے، اس کے بعد آ کر کہتا ہے: اے ابن عباس! اے ابن عباس! حالانکہ الله تعالی نے فرمایاکہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کوئی کام کرے گا، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔ اور تو نے اللہ سے تقوی نہیں کیا۔ اب میرے پاس تیرے لیے کوئی راستہ نہیں ۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمھاری بیوی تم سے جدا ہوگئی ۔ سنن ابی داؤد:حدیث۔2197)
ان تمام روایات پر غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سکھائے ہوئے طریقے سے بہت زیادہ انحراف کے مرتکب ہوئے تھے۔ صحابہ حضرت عمر کے فیصلے کے مطابق سمجھتے تھے کہ ان پرتعزیری میں قانون کا اطلاق ہوناچاہیے۔ آخری واقعے پر اچھی طرح غور کرنے سے حضرت ابن عباس ؓ جیسے صحابی کا طرزعمل، ان کے مقاصد اور ان کے پیش نظر جو حکمتیں تھیں ان کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ شخص بیوی کو تین طلاقیں دے کر آیا تھا۔ اس کے سوال پر حضرت ابن عباس ؓ کچھ دیر خاموش رہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں خدانخواستہ جواب معلوم نہ تھا۔ اس خاموشی کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کر رہے تھے کہ اس کی طلاق کو ایک قرار دے کر رجعت کا فتوی دیں یا حضرت عمر کے تعزیری حکم کے مطابق انھیں تین طلاقیں شمار کر یں ۔ حضرت ابن عباس ؓکے شاگرد خاص مجاہد کو ان کے مستقل موقف کی بنا پر یہی توقع تھی کہ آپ اسے رجعی طلاق قرار دیں گے۔ لیکن حضرت ابن عباس ؓاس شخص کے رویے اور اس کے معاملے پر غور کرنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے وہ ان کے الفاظ کے مطابق یہ تھا کہ اس شخص نے تقو ی ترک کرتے ہوئے ایک ساتھ تین طلاقیں دیں، اس لیے وہ اس حل کامستحق نہیں جو تقوی کرنے والے کے لیے ہے۔ مشکل سے نکلنے کا راستہ انہی کے لیے ہے جنھوں نے تقو ی ترک نہ کیا ہو، چنانچہ انھوں نے اسے حضرت عمرکےتعزیری حکم کے مطابق فتوی دیا۔ آپ کے الفاظ ہیں :” تم پہلے طلاق دینے میں انحراف کرتے ہو، پھر اس مشکل سے نکلنے کے لیے ابن عباس ؓ کے پاس آجاتے ہو اور ابن عباس ابن عباس! کہنا شروع کر دیتے ہو اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ لوگوں کو یہی امید ہوتی تھی کہ ابن عباس ؓ کا فتوی نھیں مشکل سے نکال دے گا ۔ جن کا دامن حضرت ابن عباس ؓ کو ترک تقوی سے پاک نظر آتا ان کے لیے وہ تعزیری فتوی غیرضروری سمجھتے تھے۔
اس پر آخر میں بات کی جائے گی کہ اہل علم نے حضرت عمر کے اجتہاد پر مبنی تعزیری فتوے کو کس طرح سمجھا ہے، پہلے اس بنیادی امر کی طرف توجہ مبذول کرنا ضروری ہے کہ حضرت عمر کے اقدام کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا کہ لوگوں کو رسول اللہﷺ کے سکھائے ہوئے طریقے سے انحراف نہ کرنے دیا جائے۔ انھیں اسی طریقے کا پابند بنایا جائے ۔ اکثر صحابہ نے جہاں شد ید انحراف دیکھا وہاں اسی تعزیری حکم کے مطابق فتوی دیا۔ یقینا اس وقت حضرت عمر علاوہ ابن عباس، ابن مسعود اور دیگر صحابہ کو توقع تھی کہ اس اقدام کے ذریعے سے لوگوں کی اصلاح ہوگی اور وہ رسول اللہﷺ کے سکھائے گئے طریقے کو اختیار کر لیں گے لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے کہ خود حضرت عمر ہی کے زمانے میں یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ انحراف میں کمی نہیں آئی۔ اسی وجہ سے حضرت عمر نے اس پر ندامت کا اظہار بھی فرمایا کہ انھیں طلاق کی تحریم کا علم نہیں دینا چاہیے تھا۔ (إغاثة اللهفان لابن القيم:1/478) مزیدکچھ وقت کے بعد انحراف شدید تر ہو گیا۔ لوگوں نے جذباتیت کی بنا پر بیک وقت کئی طلاقوں کا سلسلہ تو نہ چھوڑا، البتہ اس سے نکلنے کے لیے اسی حلالے کو اختیار کر لیا جس کے بارے میں حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی حلالہ کرنے والا میرے پاس لایا گیا تو میں اسے رجم کی سزا دوں گا ۔ گویا آپ حلالے کو زنا قرار دیتے تھے۔ اب انحراف کا یہ سلسلہ صد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اب کوئی شخص ایک طلاق دیتا ہی نہیں بیک وقت تین طلاقیں جنھیں روکنا مقصود تھا، سکہ رائج الوقت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو وکلا ء حضرات نے طلاق نامے کا مسودہ ہی وہ بنا رکھا ہے جس میں بیک وقت تین طلاقیں دی جاتی ہیں ۔ اب اس شدید انحراف اور ساتھ ہی حلالے کے نام پر زنا کی لعنت سے بچنے کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺکا طریقہ پرسے اپنا لیا جائے۔ خیر تمام کی تمام رسول اللہ ﷺ کے طریقے میں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تعزیر کے نقطہ نظر سے ہی سہی،آپ ﷺکے طریقے کو بدلنے کے نتائج ہولناک ہو گئے ہیں ۔ اب آپ کے طریقے کو ترک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
صحابہ کے مختلف فتوی جات اور ان کی روایات کی اصل صورت حال یہی ہے جو بیان کی گئی ہے۔ عبداللہ بن عباسؓ ہوں یا عبداللہ بن مسعود یا کوئی اور صحابی نہ کسی کی روایت کردہ حدیث اور اس کے فتوے میں تضاد ہے نہ ان میں سے کسی کے اپنےفتووں میں کوئی اختلاف ہے۔ تمام اجل صحابہ نے روایت وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ سے سنا، یا آپ کے بارے میں جانا ،فتوی بھی اسی کے مطابق دیا تا کہ ایک خلیفہ راشد نے وقتی ضرورت کے تحت، طلاق کے مسنون طریق سے انحراف کو روکنے کے لیے۔ ایک تعزیری اقدام کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہﷺ کی حدیث کو بیان کرنا بھی ترک نہ کیا، اپنے فتوی پربھی قائم رہے البته شد ید انحراف کے وقت حضرت عمر کا تعزیری حکم اختیار کر لیا۔ اس میں روایت اور فتوی کے تضاد، اور متضاد فتوے دینے کی کہانی خود ساختہ اور خلاف حقیقت ہے۔ آج بھی کسی صاحب علم سے کہا جائے کہ آپ کا فتوی آپ ہی کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے یا آپ بھی ایک فتوی دیتے ہیں کبھی اس سے بالکل الٹ ، تو وہ صاحب علم چراغ پا ہوں گے اور اسے اپنی دیانت اور ثقاہت پر شدید حملہ سمجھیں گے ۔ مگر افسوں کہ بہت سے اہل علم محض فقہی تعصب کا شکار ہو کر حبر الامۃ حضرت ابن عباس ؓتھا اور صاحب فقه و قرآن حضرت عبداللہ بن مسعود پر اس طرح کا الزام لگاتے ہوئے ذرابرابرجھجھک محسوس نہیں کرتے۔