اسلای شریعت سے زیادہ مؤثر ،متوازن اورمبنی بر انصاف قانون بنانا ممکن نہیں ۔ معاشرے اور خاندان کی پاکیزگی اورنسل کی حفاظت کے لیے اسلام نے زنا کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے اور اس کی حد انتہائی سخت رکھی ہے۔ یہ اتنی سخت ہے کہ اس کے میں نفاذ کی صورت میں معاشرہ زنا کی گندگی سے بالکل پاک ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ سزا انتہائی سخت ہے اس لیے کسی کو یہ سزا صرف اسی وقت دی جاسکتی ہے جب چارمکمل طور پر قابل اعتماد ( عدول) گواہ موجود ہوں ۔ اگر زنا کا الزام لگانے والا چار عدول اور ثقہ گواہ پیش نہ کر سکے تو وہ خود حد قذف کا مستوجب ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا قانون ہے جس میں طرفین کو پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺنے فیصلہ فرماتے ہوئے خود ہمیشہ ہر پہلو سے اس قانون کے تقاضے پورے فرمائے ۔ ایک عورت کے بارے میں آپ ﷺکو معلوم تھا کہ بظاہر اسلام لانے کے باوجود زنا سے باز نہیں آتی لیکن شہادتیں میسر نہ آتی تھیں ۔ اس کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:’’اگر میں کسی کو گواہوں کے بغیررجم کراتا تو اس عورت کور جم کراتا۔‘‘ حديث: 3758)
جب یہ قانون نافذ ہوا تو ایک بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ اگر کوئی خاوند اکیلا گھر میں داخل ہو اور اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ مصروف گناہ پائے تو کیا وہ چار گواہوں کا انتظام کرنے کے لیے انھیں اسی حالت میں چھوڑ کر باہر چلا جائے اور جب وہ انتظام کر کے آئے۔ پھر وہ دونوں سنبھل چکے ہوں تو اس صورت میں بے غیرت بن کر اپنے گھر کی اس گندگی پر خاموش رہے۔ اگر وہ یہ بات کھولے تو قذف کی سزا میں کوڑے کھائے۔ امام مسلم نے اس کتاب میں سب سے پہلے وہی احادیث پیش کی ہیں جو اس صورت حال کو واضح کرتی ہیں ۔ عویمرعجلانی انصاری کو اپنے گھر میں اس خرابی کا شک ہوا۔ انھوں نے اپنے قریبی عزیز عاصم بن عدی انصاری سے بات کی کہ وہ رسول اللہﷺکو اس سے باخبر کریں اور آپ سے رہنمائی حاصل کریں۔ جب عاصم نے رسول اللہﷺکو بتایا تو آپ ﷺ کو کسی انسان کی طرف سے اپنی ہی بیوی کے بارے میں ایسی سوچ بہت ناگوار گزری۔ آپ نےکوئی ہدایات جاری نہ فرمائیں ۔ مسئلہ اپنی جگہ موجود تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سورۃ النور کی آیت:آیا اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ نہ لائیں تو
انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی بھی قبول نہ کرة“ (النور کے حوالے سے آ کر ان الفاظ میں سوال کیا: یارسول الله !کیا یہ آیت اسی طرح اتری ہے؟ آگے بیوی کے حوالے سے خاوند کی غیرت کا مسئلہ اٹھایا۔ (مسند أحمد: 1/ 238 ) رسول اللہ نے ان کے سوال کے جواب میں بھی فرمایا کہ وہ چار گواہ لائے۔ لیکن حضرت سعد بیٹی کے رول کو ایک غیور انسان کا رمل قرار دیا اور اپنی اور اللہ کی غیرت کا بھی حوالہ دیا، اس کی کچھ تفصیل اس کتاب کی احادیث :3761 تا 3765 میں موجود ہے۔
پھر اسی عرصے میں یہ ہوا کہ ایک بدری صحابی ہلال بن امیہ دل حاضر ہوئے۔ انھوں نے آ کر رسول اللہ نظام کے سامنے اپنی بیوی پر ایک شخص شریک بن کماء کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگا دیا۔ (حدیث: 3767) حضرت ابن عباس جوانی کی روایت ہے کہ یہ بات بھی رسول الله علی پر بہت گراں گزری۔ انصار ڈرے کہ سعد بن عبادہ ٹلی نے یہ بات کہہ دی تھی۔ اب اس کے مطابق صورت حال میں بھی آ گئی ہے۔ قرآن کا فیصلہ موجود ہے، اس لیے چار گواہ نہ ہوں گے تو رسول اللہ ما ہلال بن امیہ جانے پر حد قذف لگائیں گے۔ ہلال جو کہنے لگے: مجھے اللہ پر یقین ہے وہ میرے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔ انھوں نے رسول اللہ ان سے عرض کی : مجھے نظر آ رہا ہے کہ یہ بات آپ کے لیے بہت گراں ثابت ہوئی ہے لیکن اللہ جانتا ہے میں یہ کہہ رہا ہوں۔ اتنے میں رسول اللہ مل بروہی نازل ہونے لگی اور یہ آیت اتری: واثنين من ازوجهم ولم يكن لهم شها إلا أنهم فهد أيهم از شهد تر پالله إنه لين اليقين o واخية أن تعنت الله عليه ان كان من الكزبینه ورؤا عنها الكتاب أن تشتم اری هلو پا إله کين الكويين والمسة أن غضب الله عليها إن كان من اليقين o اور جو اپنی بیویوں کو عیب لگائیں اور ان کے پاس اپنے سوا گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی نقص کی گواہی ہی ہے کہ اللہ کے نام کی چار گواہیاں دے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں یہ کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی پکار ہو۔ اور عورت سے مار لیںلتی ہے کہ وہ اللہ کے نام کی چارگواہیاں دے کہ محض جھوٹا ہے اور پانچویں یہ کہ اس پر الہ کا غضب آئے اگر وخص سچا ہے۔“ (النور 9ہلال ملا نے بے ساختہ کہا: مجھے اپنے رب سے اسی کی امیدی۔ رسول اللہ مل نے اس کی بیوی کو بلوایا اور دونوں میاں بیوی کوتلقین میت کے بعد نازل شده آیات کے مطابق علیحدہ علیحدہ میں کھانے کو کہا۔ آپ نے فرمایا:” پھر اگر شکل میں ہلال کی بجائے دوسرے شخص پر جائے گا تو پتہ چل جائے گا کہ وہ حقیقت میں اسی کا ہے۔“ ہی ہوا۔ بچے شریک بن کماء پر گیا لیکن رسول اللہ سلام نے محض اس بنیاد پر شریک کو سزا دینے کی کاروائی ن فرمائی۔ پانچویں قسم کے الفاظ میں لعنت کا ذکر ہے اس لیے اس فیصلے کی ساری کارروائی کو لعان کا نام دیا گیا۔
اس اثناء میں مویرگیلانی وال پر بھی گھر کی صورتحال واضح ہوگئی۔ وہ رسول اللہ کی خدمت میں اپنا کیس لے کر آئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تمھارے قضیے کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہو چکی ہے‘ آپ نے ان دونوں میاں بیوی کے درمیان بھی لعان کروا کر ان کا فیصلہ کر دیا۔ عویمر جان نے یہ کہہ کر اس عورت کو قطعی طلاق د ے دی کہ اگر میں اسے گھر میں رکھوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا۔ یہ فطری رڈل تھا۔ رسول اللہ ان کو اس سے یہ بات کہی نہ پڑی ۔ اس دن میہ
طے ہو گیا کہ لعان کے بعد دونوں میاں بیوی میں نکاح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ مرد، عورت کو دیا ہوا حق مہر انہیں نہیں لے سکتا۔ اگر العان کے بعد پتہ ہو تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ یہ شر یت کے بے مثال توازن اور اعتدال کی ایک مثال ہے کہ تیسرا شخص جس پر عورت سے ملوث ہونے کا الزام ہے، لعان کے فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ چارقسموں کے باوجود اس کے حوالے سے چارگواہ موجود نہیں ۔ وہ بھی قدف کا الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ میاں بیوی کے درمیان کا معاملہ تھا نھی کے درمیان مل گیا۔ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہو گیا۔
احادیث کی ترتیب الگ ہے لیکن اس تعارف کی روشنی میں اچھی طرح مجھ میں آ سکتی ہے۔