تشریح:
فوائدو مسائل:
(1) اگر حفاظت کے لیے کتا رکھنا ناگزیر نہ ہو تو اسے رکھنے کی اجازت نہیں۔ جن اقوام کے ہاں بغیر ضرورت کے کتے رکھے جاتے ہیں، وہاں اس کی قباحتیں سامنے آتی ہیں اور ان پر (پوری طرح) قابو بھی نہیں پایا جا سکتا۔ اگر کتے کو تجارت کی جنس بنا لیا جائے تو اسی غرض سے ان کو پالا جائے گا، ان کو فروخت کرنے کے لیے ان کی تشہیر و ترویج ہو گی۔ ویسے بھی یہ جانور حرام ہے اور اس کے منہ لگانے کی بنا پر برتن کو سات بار دھونا پڑتا ہے، اسلام میں کسی بھی حرام جنس کی خرید و فروخت کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔
(2) زنا کاری کا معاوضہ لینے والے حرام کا سودا کر رہے ہیں۔ اس کمائی کے حصول کے لیے آج دنیا بھر میں شرمناک ظلم و ستم جاری ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کو فریب دے کر یا زبردستی اس میں ملوث کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس کام کی اجازت دینا گندگی اور ظلم کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے، اس لیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
(3) کاہن بھی جھوٹ پھیلاتا، توہمات اور گمراہی کی تجارت کرتا ہے، اس کی کمائی بھی حرام ہے۔
(4) اصول یہ سامنے آتا ہے کہ جو چیز یا کام بذاتہ حرام ہے، اس کی قیمت بھی حرام ہے، اس کی تجارت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اصول خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے، آپﷺ نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔‘‘ (سنن أبی داؤد، حدیث: 3488۔ و مسند احمد: 1/ 247)