تشریح:
فوائدومسائل:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے ذرا قبل مسلمان ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کاتب مقرر فرمایا تو وہ کثرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے جانے اور رہنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے دین کا بڑا حصہ براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔ ان کا یہ خیال اپنی جگہ درست تھا۔ لیکن جو صحابہ ان کی نسبت بہت پہلے سے صحبت اقدس سے مستفید ہو رہے تھے، ان کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت دین کا علم بہت زیادہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت دین کا علم بہت زیادہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جنگی اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دمشق کا گورنر اور سالار بنایا لیکن ساتھ ہی انہوں نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور دیگر فقہاء صحابہ کو تربیت اور ارشاد کے لیے لشکر میں بھجوایا تاکہ وہ شرعی احکام کے حوالے سے سالار سمیت سارے لشکر کی رہنمائی کریں۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے صحیح طور پر اپنا فرض ادا کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی بات براہِ راست اپنے حکم سے متصادم لگی، لیکن انہوں نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر کچھ کہنے کی بجائے اس بات کا ذکر اپنے خطبے میں کیا اور معاملہ ایک طرح سے عام شوریٰ میں پیش کر دیا لیکن حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سختی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کوئی تائیدی شہادت حاصل نہ ہو سکی۔ اس طرح تمام حاضرین مسئلے کی حقیقت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے آگاہ ہو گئے۔