قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ وَالمُزَارَعَةِ (بَابُ بَيْعِ الطَّعَامِ مِثْلًا بِمِثْلٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1595.02. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الصَّرْفِ، فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا، فَإِنِّي لَقَاعِدٌ عِنْدَ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: مَا زَادَ فَهُوَ رِبًا، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ لِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جَاءَهُ صَاحِبُ نَخْلِهِ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ طَيِّبٍ، وَكَانَ تَمْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا اللَّوْنَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّى لَكَ هَذَا؟» قَالَ: انْطَلَقْتُ بِصَاعَيْنِ فَاشْتَرَيْتُ بِهِ هَذَا الصَّاعَ، فَإِنَّ سِعْرَ هَذَا فِي السُّوقِ كَذَا، وَسِعْرَ هَذَا كَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلَكَ، أَرْبَيْتَ، إِذَا أَرَدْتَ ذَلِكَ، فَبِعْ تَمْرَكَ بِسِلْعَةٍ، ثُمَّ اشْتَرِ بِسِلْعَتِكَ أَيَّ تَمْرٍ شِئْتَ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ أَحَقُّ أَنْ يَكُونَ رِبًا، أَمِ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ؟»، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عُمَرَ بَعْدُ فَنَهَانِي، وَلَمْ آتِ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي أَبُو الصَّهْبَاءِ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْهُ بِمَكَّةَ فَكَرِهَهُ.

مترجم:

1595.02.

داود نے ہمیں ابونضرہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے سونا چاندی کے تبادلے کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے اس میں کوئی حرج نہ دیکھا۔ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے اس تبادلے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: (ایک ہی جنس کے تبادلے میں) جو اضافہ ہو گا وہ سود ہے۔ میں نے ان دونوں کے قول کی بنا پر (جس میں انہوں نے ایسی کوئی شرط نہ لگائی تھی) اس بات کا انکار کیا تو انہوں نے کہا: میں تمہیں وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی۔ آپﷺ کے باغ کا نگران آپﷺ کے پاس عمدہ کھجور کا ایک صاع لایا اور نبی ﷺ کی کھجور اس (عام) قسم کی تھی تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ’’یہ تمہارے پاس کہاں سے آئیں؟‘‘ اس نے کہا: میں (اس کے) دو صاع لے کر گیا اور ان کے عوض میں نے یہ ایک صاع خرید لی، بازار میں اِس کا نرخ اتنا ہے اور اُس کا اتنا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پر افسوس! تم نے سود کا معاملہ کیا، جب تم یہ (عمدہ کھجور) لینا چاہو تو اپنی کھجور کسی (اور) تجارتی چیز کے عوض فروخت کر دو، پھر اپنی چیز سے جو کھجور چاہو، خرید لو۔‘‘ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: کھجور کے عوض کھجور، زیادہ لائق ہے کہ سود ہو، یا چاندی کے عوض چاندی؟ (ابونضرہ نے) کہا: میں اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس نہیں آیا۔ کہا: مجھے ابوصبہاء نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے مکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بھی اسے ناپسند کیا تھا۔