قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ وَالمُزَارَعَةِ (بَابُ بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1599.06. حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَلَاحَقَ بِي وَتَحْتِي نَاضِحٌ لِي قَدْ أَعْيَا، وَلَا يَكَادُ يَسِيرُ، قَالَ: فَقَالَ لِي: «مَا لِبَعِيرِكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: عَلِيلٌ، قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ، فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، قَالَ: فَقَالَ لِي: «كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ، قَالَ: «أَفَتَبِيعُنِيهِ؟» فَاسْتَحْيَيْتُ، وَلَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي عَرُوسٌ، فَاسْتَأْذَنْتُهُ، فَأَذِنَ لِي فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى انْتَهَيْتُ، فَلَقِيَنِي خَالِي، فَسَأَلَنِي عَنِ الْبَعِيرِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ، فَلَامَنِي فِيهِ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ: «مَا تَزَوَّجْتَ؟ أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟»، فَقُلْتُ لَهُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، قَالَ: «أَفَلَا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلَاعِبُكَ وَتُلَاعِبُهَا؟»، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، تُوُفِّيَ وَالِدِي - أَوِ اسْتُشْهِدَ - وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ إِلَيْهِنَّ مِثْلَهُنَّ فَلَا تُؤَدِّبُهُنَّ، وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ.

مترجم:

1599.06.

مغیرہ نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ لڑا، آپ پیچھے سے آ کر مجھے ملے جبکہ میں اپنے پانی ڈھونے والے اونٹ پر تھا جو تھک چکا تھا اور چل نہ پاتا تھا۔ کہا: آپﷺ نے مجھ سے پوچھا: ’’تمہارے اونٹ کو کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: بیمار ہے۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہوئے، اسے دوڑایا اور اس کے لیے دعا کی۔ اس کے بعد وہ مسلسل سب اونٹوں سے آگے چلتا رہا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اپنے اونٹ کو کیسا پا رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: بہت بہتر ہے، اسے آپﷺ کی برکت حاصل ہو چکی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم مجھے وہ فروخت کرو گے؟‘‘ اس پر میں نےحیا محسوس کی (کہ ایسا اونٹ جسے میں راہ ہی میں چھوڑ دینے کا ارادہ کر چکا تھا اور جو محض آپﷺ کی دعا سے ٹھیک ہوا، اس کی آپﷺ سے قیمت لوں۔) اور ہمارے پاس اس کے سوا پانی لانے والا اور اونٹ بھی نہ تھا (اس لیے بھی میں تردد کا شکار ہوا۔) کہا: پھر میں نے عرض کی: جی ہاں، چنانچہ میں نے آپ کو وہ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس کی پشت کی ہڈی (پر سواری) میری ہو گی۔ کہا: اور میں نے آپﷺ سے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نیا نیا دلہا ہوں، میں نے آپ سے (تیزی سے گھر جانے کی) اجازت مانگی تو آپﷺ نے مجھے اجازت دے دی، میں لوگوں سے آگے مدینہ کی طرف چل پڑا حتی کہ میں پہنچ گیا، مجھے میرے ماموں ملے اور انہوں نے مجھ سے اونٹ کے بارے میں پوچھا، میں نے جو کیا تھا انہیں بتا دیا تو انہوں نے مجھے اس پر ملامت کی۔ کہا: جب میں نے (گھر جانے کی) اجازت مانگی تھی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تھا: ’’تم نے کس سے شادی کی: باکرہ سے یا دوہاجو سے؟‘‘ میں نے عرض کی: میں نے دوہاجو عورت سے شادی کی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم نے باکرہ سے کیوں شادی نہ کی، تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی؟‘‘ تو میں نے آپﷺ سے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! میرے والد فوت ۔۔ یا شہید ۔۔ ہو گئے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں، مجھے اچھا نہ لگا کہ میں شادی کر کے ان کے پاس انہی جیسی (کم عمر) لے آؤں، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے اور نہ ان کی نگہداشت کر پائے، اس لیے میں نے دوہاجو عورت سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگہداشت کرے اور انہیں ادب سکھائے۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، (تو) میں صبح کے وقت آپ کے پاس اونٹ لے کر حاضر ہوا، آپﷺ نے مجھے اس کی قیمت ادا کر دی اور وہ (اونٹ) بھی مجھے واپس کر دیا۔