تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے عمرٰی کے بارے میں رسول اللہ کے احکام خود آپﷺ کی زبان مبارک سے سنے۔ وہی آپﷺ کے فرمان کے مفہوم سے زیادہ آگاہ ہیں۔ انھوں نے جو کہا ہے وہی حق و انصاف کے اصولوں کے بھی عین مطابق ہے۔ واپسی سے مشروط عطیے کو غیر مشروط پر قیاس کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول جس کی کسی بھی صحابی سے مخالفت مروی نہیں، رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے تعین کے لیے ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کے قول پر کسی غیر صحابی کو ترجیح دی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ ’’وَقَعَت فِیهَ المَوَارِيث‘‘ (جن میں میراث جاری ہوچکی) سے بھی حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ جس میں میراث جاری نہیں ہوئی بلکہ معاہدہ ہی یہ کیا گیا ہے کہ یہ چیز واپس مالک کے تصرف میں آ جائے گی۔ اس کا یہ حکم نہیں ہو سکتا کہ وہ واپس نہ ہو۔
(2) بعض حضرات نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ عبدالرزاق کے علاوہ کسی اور نے اس قول کی نسبت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نہیں کی۔ لہذا یہ محض امام زہری کا قول ہے۔ اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات واقعی امام طحاوی سمیت تنہا کسی ایک ثقہ محدث کی روایت سے استدلال ترک کر چکے ہیں۔