تشریح:
فوائدومسائل:
(1) یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مختمف تابعین اور ان سے ان کے مختلف شاگردوں نے روایت کی ہے۔ اصل واقعےکے بیان میں، جس سے مختلف مسائل اخذ کیے جا سکتے ہیں، کوئی فرق نہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حرم کی عورتوں کی تعداد مختلف راویوں نے مختلف بیان کی ہے: ساٹھ، ستر، نوے اور بعض روایات میں سو بھی ہے۔ اس تعداد سے ہمارے دین کا کوئی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے بیان کرنے والوں نے اس کے ضبط کا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ راویوں کی توجہ واقعے کے بنیادی حقائق کے تحفظ اور ضبط کی طرف ہوتی ہے۔ اس لیے محدثین نے، ایسی تمام روایات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ اصول وضع کیا ہے کہ اس طرح کی غیر اہم تفصیلات میں کسی راوی کے وہم سے اصل واقعے کے بیان کی صحت مجروح نہیں ہوتی۔ یہ ایک عمومی اصول ہے۔ اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ عربوں میں بعض عدد کثرتِ تعداد کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، بالکل اصل عدد مراد نہیں ہوتا، ستر اور سو کا عدد خاص طور پر اس غرض سے استعمال ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں بھی بعض صورتوں میں یہ عدد کثرت تعداد کے لیے استعمال ہوتے ہیں اصل گنتی مراد نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے: میں ستر بار حاضر ہوں گا یا سو بار یہ نام لوں گا وغیرہ۔ زیادہ قرین قیاس بات یہی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی ایسا ہی عدد روایت کیا جو کثرتِ تعداد پر دلالت کرتا تھا اور مختلف سننے والوں نے اس عدد سے محض کثیر تعداد مراد لی اور بیان کرتے ہوئے کثرِ تعداد کے لیے استعمال ہونے والا کوئی سا بھی عدد استعمال کرلیا۔
(2) انبیاء کرام کو عام انسانوں کی نسبت بہت زیادہ قوت ودیعت کی جاتی ہے۔