سی مقتول کی لاش کسی علاقے میں پائی جائے اور قاتل کے بارے میں واضح شہادت موجود نہ ہوتو قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے مقتول کے ورثا ء پچاس اجتماعی قسمیں کھا سکتے ہیں ۔ اگر وہ قسمیں نہ کھائیں تو جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہے وہ پچاس اجتماعی قسمیں کھا کر ذمہ داری سے بری ہو سکتے ہیں ۔ ان اجتماعی قسموں کو اور بعض لوگوں کے بقول قسمیں کھانے والوں کو اور بعض کے نزدیک اجتماعی قسم کھانے کے اس عمل کو قسامہ کہا جا تا ہے۔
یہ دستور جاہلی دور سے چلا آرہا تھا۔ لوگ اندھے قتل میں، حصول انصاف کے اس طریقے کو قبول کرتے تھے، اس میں عدل و انصاف کے تقاضے بھی پامال نہ ہوتے تھے بلکہ مقتول کے ورثاء کی داد رسی کی صورت نکل سکتی تھی، اس لیے رسول اللهﷺ نے اس طریق کار کو برقرار رکھا۔ آپ کے عہد مبارک میں اگر چہ عملااجتماعی قسموں کی نوبت نہ آئی ، لیکن خلفاء کے عہد میں اس طریق کار پر عمل بھی ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو اسے کسی حد تک جرگے سے ملتا جلتا طریقہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے مقتول کے ورثا کوقسامہ کے جس طریق کار کی پیش کش فرمائی، اس میں ہر پہلو سے احتیاط اور عدل کا قیام مقدم ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب عبداللہ بن سہل بن زید انصاری کے خیبر میں ، یہود کی آبادیوں کے پاس قتل ہو جانے کا معاملہ پیش کیا گیا تو قوی شبہ یہود پر تھا۔ آپﷺ نے اس کے بھائی اور دیگر عزیزوں سے پوچھا: تم لوگوں کے پاس کوئی گواہ یا شہادت ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا نہیں۔ (بخاری، حدیث:6898) آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤ گےکہ اس کو فلاں نے قتل کیا ہے تو اسے تمھارے سپرد کر دیا جائے؟، بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں:’یا تم اپنے ساتھی کے خون (بها) کے حقدار ہو جاو ؟ تو انھوں نے کہا: ہم نے قتل ہوتے نہیں دیکھا تو قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟ آپ ﷺ فرمایا: پھر یہود (جوقتل کے ارتکاب کا انکار کر رہے تھے ) پچاس قسمیں کھائیں گے اور تمھیں قسم کھانے کے التزام کا اہتمام سے بری کر دیں گے ۔‘‘ مقتول کے گھر والوں کو بھی قبول نہ تھا، انھوں نے کہا: وہ تو اس سے بھی بڑی باتوں کی جرات کرتے ہیں، بعض روایات میں ہے: وہ جھوٹی قسمیں کھا لیں گے اور بعد میں کفارے دے دیں گے۔ قسامہ سے چونکہ مسئلے کا ایسا حل نہ نکل رہا تھا جس سے مقتول کے اعزہ کی داد رسی ہو سکے تو رسول اللهﷺ نے کمال رحمت سے مقتول کا خون بہا، سو اونٹ ، ورثاء کو اپنی طرف سے ادا کر دیے۔
قسامہ ، دادرسی اور مصالح انسانی کے تحفظ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ صحابہ و تابعین ، حجاز، شام ، عراق کے اکثر ائمہ، علماء اور سلف ضرورت کے وقت قسامہ پرعمل کرنے کے قائل ہیں۔ دوسری طرف کچھ اہل علم جن میں حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر اور حضرت عمر بن عبدالعز بز نمایاں ہیں، اس سے اختلاف کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ قسامہ کی بنیاد پر قصاص میں خون کسی کو قتل کرنے کے قائل نہ تھے۔ اس اختلاف کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ فقہائے حجاز کی اکثریت اور زہری، ربیہ، ابوز ناد لیث ، اوزاعی ، اسحاق، ابوثور اوداود کے علاوہ امام مالک، امام شافعی ( ایک قول کے مطابق) اور امام احمد اسی کے قائل ہیں کہ اگر تمام شرائط پوری ہو جائیں تو جس کے بارے میں شرائط پوری ہوں اسے قصاص میں قتل کیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس اور دیگر حضرات جو صرف دیت کے قائل ہیں ان کا استدلال رسول الله ﷺ کے ان الفاظ سے ہے: یہود اس کی دیت دیں گے یا جنگ کے لیے تیار ہوں گے۔“ (حدیث: 4349) جو قصاص کے بھی قائل ہیں ان کا استدلال آپ ﷺکے ان الفاظ سے ہے: تم میں سے پچاس آدمی ان میں سے ایک آدمی پرقسمیں کھائیں گے تو وہ اپنی رسی سمیت جس میں وہ بندھا ہو گا تمھارے حوالے کر دیا جائے گا ۔“(حدیث 4343 حوالے کر دیا جائے گا‘ کا فوری طور پر ذہن میں آنے والا معنی یہی ہے کہ اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ لیکن یہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ وہ دیت کی ادائیگی تک بطور ضمانت مقتول کے خاندان کے پاس رہے گا۔ امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں لکھا ہے۔ میں نے عبید اللہ بن عمر العمری سے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ کبھی رسول اللہﷺ نے قسامہ کی بنیاد پر قصاص دلوایا؟ کہا: نہیں، میں نے کہا: حضرت ابوبکر نے ؟ کہا: نہیں، میں نے کہا: پھر حضرت عمر نے؟ کہا: نہیں، میں نے کہا: پھر تم لوگ کس طرح اس کی جرات کرتے ہو؟ معروف تابعی ابوقلابہ نے بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے، قسامہ کی بنیاد پر قصاع میں قتل کرنے کے خلاف زور دار دلائل دیے۔ یہ حد یث صحیح بخاری، کتاب الديات، باب القسامه میں بیان ہوئی ہے۔ (مزید تفصیلات اور اختلافات کے حوالے سے دلائل کے لیے فتح الباری: 12/288 - 298 کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
معاملہ کیا ہے ایک اندھے قتل کا ہو، کوئی ذمہ دار معاشرہ مقتول کے خون کو رائگاں قرار دینا گوارا نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں قسامہ کا طریقہ ہی ذمہ داری کے تعین اور مقتول کے خاندان کی داد رسی کا معقول ترین دستیاب طریقہ ہے، کیا برادری یا بستی کے لوگوں کے خلاف ظاہری قرائن موجود ہوں لیکن قطعی شہادت موجود نہ ہو تو اس صورت میں ان لوگوں میں پچاس قابل اعتماد لوگوں سے قسم لینے کا طریقہ ہی مناسب ترین دستیاب طریقہ ہے۔ اگر کسی برادری یا آبادی کے پچاس قابل اعتبارلوگوں کوقسم کے لیے بلایا جائے تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگر ان میں سے کسی بھی شخص کو اپنی برادری اور اپنے محلے کے لوگوں میں سے کسی پر بھی شک ہو تو وہ اس بات کی قسم نہ کھائے کہ اسے قاتل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ہاں اگر کوئی معاشرہ اس حد تک گر چکا ہو کہ اس میں دو فیصد لوگ بھی سچ کہنے والے یا کم از کم جھوٹی قسم سے احتراز کرنے والے موجود نہ ہوں تو ایسے معاشرے، برادری سے نپٹنے کے لیے فطرت کے دوسرے قوانین موجود ہیں۔
یہ سب انتظامات انسانی جان کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ اپنی ترتیب کو آگے بڑھاتے ہوئے ، قسامہ کے بعد امام مسلم نے قتل و غارت اور ڈاکہ زانی کے مجرموں اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے والوں کی سزا کے بارے میں احادیث بیان
کیں ۔ ایسے مجرم کسی ایک کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ معمولی مالی فائدے کے لیے بہت سے لوگوں کو انتہائی ظالمانہ طریقوں سے تباہ و ہلاک کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس نظام ہی کے منکر اور دشمن ہوتے ہیں جو انسانی جانوں کے تحفظ کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے۔ ایک مرتد ان تمام حرمتوں کا منکر ہوتا ہے جو اللہ کی طرف سے انسانیت کے تحفظ کے لیے مقرر کی گئی ہیں ۔ ان کی سزا بھی ان کے جرائم کی سنگینی کےمطابق ہے۔
پھر بے گناہ انسانی جان یا اس کے کسی عضو کو تلف کرنے کی سزا کا ذکر ہے جو قصاص یادیت کی صورت میں ہوتی ہے۔ امام مسلمنے ان اسباب کے حوالے سے بھی احادیث بیان کی ہیں جن کی وجہ سے کسی انسان کا خون حلال ہو جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سب کی جانوں کو تحفظ حاصل ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ آخرت میں بھی سب سے پہلے خون کے حوالے سے محاسبہ اور رسی اور سزا کا اہتمام ہوگا۔
انسانی جان کے ساتھ ساتھ اس کی عزت اور اس کے مال کو بھی حرمت حاصل ہے، اس بات کو رسول اللہ ﷺکے خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے سے واضح کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے ابھی پیدا نہ ہونے والے پیٹ کے بچے کی بھی ویت رکھی ہے۔ انسانی جانوں کے تحفظ کا یہ ایک مکمل نظام ہے جو اللہ کی طرف سے انسانوں کو عطا کیا گیا ہے۔