قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحُدُودِ (بَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1695.01. وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ الْأَسْلَمِيَّ، أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَزَنَيْتُ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَرَدَّهُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، فَرَدَّهُ الثَّانِيَةَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: «أَتَعْلَمُونَ بِعَقْلِهِ بَأْسًا، تُنْكِرُونَ مِنْهُ شَيْئًا؟» فَقَالُوا: مَا نَعْلَمُهُ إِلَّا وَفِيَّ الْعَقْلِ مِنْ صَالِحِينَا فِيمَا نُرَى، فَأَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ أَيْضًا فَسَأَلَ عَنْهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ، وَلَا بِعَقْلِهِ، فَلَمَّا كَانَ الرَّابِعَةَ حَفَرَ لَهُ حُفْرَةً، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، قَالَ، فَجَاءَتِ الْغَامِدِيَّةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ فَطَهِّرْنِي، وَإِنَّهُ رَدَّهَا، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، لِمَ تَرُدُّنِي؟ لَعَلَّكَ أَنْ تَرُدَّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزًا، فَوَاللهِ إِنِّي لَحُبْلَى، قَالَ: «إِمَّا لَا فَاذْهَبِي حَتَّى تَلِدِي»، فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي خِرْقَةٍ، قَالَتْ: هَذَا قَدْ وَلَدْتُهُ، قَالَ: «اذْهَبِي فَأَرْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ»، فَلَمَّا فَطَمَتْهُ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ، فَقَالَتْ: هَذَا يَا نَبِيَّ اللهِ قَدْ فَطَمْتُهُ، وَقَدْ أَكَلَ الطَّعَامَ، فَدَفَعَ الصَّبِيَّ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلَى صَدْرِهَا، وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوهَا، فَيُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِحَجَرٍ، فَرَمَى رَأْسَهَا فَتَنَضَّحَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِ خَالِدٍ فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ: «مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ»، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا، وَدُفِنَتْ

مترجم:

1695.01.

بُشیر بن مہاجر نے حدیث بیان کی، کہا: عبداللہ بن بریدہ نے ہمیں اپنے والد سے حدیث بیان کی کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے (گناہ کی آلودگی سے) پاک کر دیں۔ آپﷺ نے انہیں واپس بھیج دیا، جب اگلا دن ہوا، وہ آپ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے زنا کیا ہے۔ تو آپ نے دوسری بار انہیں واپس بھیج دیا۔ آپ ﷺ نے ان کی قوم کی طرف پیغام بھیجا اور پوچھا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ ان کی عقل میں کوئی خرابی ہے، (ان کے عمل میں) تمہیں کوئی چیز غلط لگتی ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ہمارے علم میں تو یہ پوری عقل والے ہیں، جہاں تک ہمارا خیال ہے۔ یہ ہمارے صالح افراد میں سے ہیں۔ وہ آپ کے پاس تیسری بات آئے تو آپ نے پھر ان کی طرف (اسی طرح) پیغام بھیجا اور ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان میں اور ان کی عقل میں کوئی خرابی نہیں ہے، جب چوتھی بار ایسا ہوا تو آپ نے ان کے لیے ایک گڑھا کھدوایا، پھر ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا تو انہیں رجم کر دیا گیا۔ کہا: اس کے بعد غامد قبیلے کی عورت آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کیجئے۔ آپ نے اسے واپس بھیج دیا، جب اگلا دن ہوا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے واپس کیوں بھیجتے ہیں؟ شاید آپ مجھے بھی اسی طرح واپس بھیجنا چاہتے ہیں جیسے ماعز کو بھیجا تھا، اللہ کی قسم! میں حمل سے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر نہیں (مانتی ہو) تو جاؤ حتی کہ تم بچے کو جنم دے دو۔‘‘ کہا: جب اس نے اسے جنم دیا تو بچے کو ایک بوسیدہ کپڑے کے ٹکڑے میں لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یہ ہے، میں نے اس کو جنم دے دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ، اسے دودھ پلاؤ حتی کہ تم اس کا دودھ چھڑا دو۔‘‘ جب اس نے اس کا دودھ چھڑا دیا تو بچے کو لے کر آپﷺ کے پاس حاضر ہوئی، اس کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اس نے کھانا بھی کھا لیا ہے۔ (ابھی اس کی مدت رضاعت باقی تھی۔ ایک انصاری نے اس کی ذمہ داری اٹھا لی) تو آپﷺ نے بچہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی (اس انصاری) کے حوالے کیا، پھر اس کے لیے (گڑھا کھودنے کا) حکم دیا تو سینے تک اس کے لیے گڑھا کھودا گیا اور آپﷺ نے لوگوں کو حکم دیا تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعلی عنہ  ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اس کے سر پر مارا، خون کا فوارہ پھوٹ کر حضرت خالد رضی اللہ تعلی عنہ کے چہرے پر پڑا تو انہوں نے اسے برا بھلا کہا، نبی ﷺ نے ان کے برا بھلا کہنے کو سن لیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’خالد! ٹھہر جاؤ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا (جو ظلماً لاتعداد انسانوں کا حق کھاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اسے بھی معاف کر دیا جائے۔‘‘ پھر آپﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اسے دفن کر دیا گیا۔