تشریح:
فوائد و مسائل:
1۔ ان چاروں آیتوں کی تفصیل کتاب فضائل الصحابہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کے تذکرے میں بیان ہوئی ہے۔
2۔ جاہلی دور میں مال غنیمت میں سے سب سے اچھا اور بڑا حصہ سردار کے لیے ہوتا تھا۔ وہ چاہتا تو اس میں سے کچھ نمایاں بہادری دکھانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے عطا کرتا۔ سنن ابی داؤد میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے موقع پر اعلان فرمایا تھا: (مَنْ فَعَلَ كَذَا وَ كَذَا فَلَهُ مِنَ النَّفْلِ كِذَا وِكَذَا) ’’جس نے فلاں فلاں کام کیا اسے اتنا اتنا اضافی انعام ملے گا۔‘‘ (سنن أبي داؤد، حديث:2737) حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ جو اضافی انعام کے طور پر اپنی پسند کی تلوار لے کر آئے تو اس وقت تک اللہ کی طرف سے غنیمت کے احکام نازل نہ ہوئے تھے اگرچہ ان کے نزول کے توقع کی جا رہا تھی: اس لیے آپﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ تلوار واپس رکھ دیں۔ سنن ابو داؤد ہی میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے تفصیلی روایت منقول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی پسند کی تلوار لے کر رسول اللہ کے پاس گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ تلوار تمھاری ہے نہ میری‘‘ پھر جب میں چلا گیا تو آپﷺ نے میرے پیچھے قاصد بھیجا۔ جب میں حاضرہوا تو فرمایا: ’’تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی، حالانکہ یہ نہ میری ہے اور نہ تمھاری اور (اب) اللہ تعالی نے اسے مجھے دے دیا ہے (پانچواں حصہ میری صوابدید پر ہے)، لہذا اب یہ تمھاری ہے۔‘‘ (سنن أبي داؤد، حديث:2740) سورۂ انفال میں ہے کہ اموالِ عنیمت پورے پورے اللہ اور اس کے رسول کے ہیں اور تقسیم اس طرح کی گئی ہے: اللہ تعالی کی طرف سے چار حصے جہاد کرنے والوں میں بانٹنے کے لیے ہوں گے اور پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کے لیے۔ آپ اس حصے میں سے انعام بھی دیتے تھے اور ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی پوری فرماتے تھے۔