قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِيلِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1751.02. وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ، فَضَرَبْتُهُ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، وَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا لِلنَّاسِ؟ فَقُلْتُ: أَمْرُ اللهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَلَهُ سَلَبُهُ»، قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟» فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللهِ، سَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي، فَأَرْضِهِ مِنْ حَقِّهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لَا هَا اللهِ، إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسُدِ اللهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللهِ وَعَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ، فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ»، فَأَعْطَانِي، قَالَ: فَبِعْتُ الدِّرْعَ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِيهِ، أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعُ أَسَدًا مِنْ أُسُدِ اللهِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ

مترجم:

1751.02.

امام مالک بن انس کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن سعید نے عمر بن کثیر بن افلح سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مولیٰ ابومحمد سے اور انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حنین کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچی۔ کہا: میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جو مسلمانوں کے ایک آدمی پر غالب آ گیا تھا، میں گھوم کر اس کی طرف بڑھا حتی کہ اس کے پیچھے آ گیا اور اس کی گردن کے پٹھے پر وار کیا، وہ (اسے چھوڑ کر) میری طرف بڑھا اور مجھے اس زور سے دبایا کہ مجھے اس (دبانے) سے موت کی بو محسوس ہونے لگی، پھر اس کو موت نے آ لیا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس کے بعد میری حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس پلٹے اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ’’جس نے کسی کو قتل کیا، (اور) اس کے پاس اس کی کوئی دلیل (نشانی وغیرہ) ہو تو اس (مقتول) سے چھینا ہوا سامان اسی کا ہو گا۔‘‘ کہا: تو میں کھڑا ہوا اور کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔ کہا: تو میں کھڑا ہوا اور کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے تیسری بار یہی فرمایا۔ کہا: میں پھر کھڑا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوقتادہ! تمہارا کیا معاملہ ہے؟‘‘ تو میں نے آپﷺ کو یہ واقعہ سنایا۔ اس پر لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اس نے سچ کہا ہے۔ اس مقتول کا چھینا ہوا سامان میرے پاس ہے، آپﷺ انہیں ان کے حق سے (دستبردار ہونے پر) مطمئن کر دیجیے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! آپ ﷺ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر سے، جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑائی کرتا ہے، نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے مقتول کا چھینا ہوا سامان تمہیں دے دیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’انہوں نے سچ کہا: وہ انہی کو دے دو۔‘‘ تو اس نے (وہ سامان) مجھے دے دیا، کہا: میں نے (اسی سامان میں سے) زرہ فروخت کی اور اس (کی قیمت) سے (اپنی) بنو سلمہ (کی آبادی) میں ایک باغ خرید لیا۔ وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام (کے زمانے) میں بنایا۔ لیث کی حدیث میں ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، آپ ﷺ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر قریش کے ایک چھوٹے سے لگڑ بگھے کو عطا نہیں کریں گے۔لیث کی حدیث میں ہے: (انہوں نے کہا) وہ پہلا مال تھا جو میں نے بنایا۔