تشریح:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی اور مسلمانوں کی امارت بہت بڑی ذمہ داری تھی اور ہے۔ اس میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تمام معاملات کو بعینہ اسی طرح چلایا جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلایا اور حکم دیا۔ خلافت راشدہ کے دوران میں خلیفہ کی بیعت کرتے ہوئے اس سے اسی بات کا عہد لیا جاتا تھا۔ خلفائے راشدین نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اپنے خطابات میں اسی بات کا عہد کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ بڑا امتحان تھا۔ وہ اس بات پر ثابت قدم رہے کہ جو بھی معاملہ ہو، وہ اسے اسی طرح نپٹائیں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل، اپنا طریق کار یا اپنا فیصلہ تھا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کی روانگی کے مسئلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمیت صحابہ کی اکثریت کا مطالبہ یہ تھا کہ مدینہ کو درپیش شدید خطرات کے پیش نظر جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کا خاندان مقیم تھا، اس لشکر کی روانگی کو ملتوی کر دیا جائے۔ تمام لوگوں کی رائے، ان کی مرضی اور ان کے مطالبے کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب ایک ہی تھا جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور جس بات کا آپ نے حکم دیا، میں اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا چاہے اس بات کی جتنی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ فے کے اموال، اراضی اور باغات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ قرار دیا تھا اور ان کی آمدنی میں سے اپنی ازواج اور خاندان کے اخراجات کے بعد باقی سارا حصہ فقراء اور مساکین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اور اپنی حیاتِ مبارکہ کے دوران میں اسی پر عمل فرمایا تھا۔ اب حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مطالبے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو بدل دینا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جس مال کو صدقہ قرار دیا، اسے ورثہ قرار دینا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اختیار میں نہ تھا۔ انہوں نے، ان اموال کو جو حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، اس کی وضاحت اور آپ کے صریح ارشاد ’’لا نورث ما تركنا صدقة‘‘ کی یاد دہانی کے بعد یہی عذر پیش کیا کہ میں آپ کا طریق کار چھوڑ دوں تو گمراہ ہو جاؤں گا۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سمیت تمام ازواجِ مطہرات کے معاملے میں بھی اسی پر عمل کیا، انہیں کوئی ورثہ نہ ملا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، ان کے گھرانے اور بنو ہاشم کو بھی ان اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کا وہ پورا حصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر صرف فرماتے تھے، ملتا رہا۔ بعد ازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان باغات کا انتظام اس شرط پر حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے سپرد کر دیا کہ وہ اس کی آمدنی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریق کار کے مطابق خرچ کریں گے۔ اس کے بعد انہوں نے ازواجِ مطہرات کو بھی اختیار دیا کہ وہ حسب سابق آمدنی میں سے حصہ لیتی رہیں اور چاہیں تو اتنی آمدنی کے بقدر زمین اور پانی کا انتظام ان کی تولیت میں دے دیا جائے۔ ازواجِ مطہرات میں سے کچھ نے پرانے معمول کو ترجیح دی اور کچھ نے اراضی اور باغ کے آنے والے حصے کی تولیت کو پسند کیا۔ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما میں البتہ اس مال کے حوالے سے شدید اختلاف پیدا ہوا جو ان کی تولیت میں دیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل اوپر بیان کردہ احادیث میں موجود ہے۔