قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ كِتَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى هِرَقْلَ يَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1773. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّامِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ، فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا، فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ لَهُ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللهِ، لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَمَنْ يَتَّبِعُهُ؟ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ: فَوَاللهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ، فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَغْدِرُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ: لَو قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَ {يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ}» فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغْطُ، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، قَالَ: فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ

مترجم:

1773.

معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں روبرو بتایا، کہا: (معاہدہ صلح کی) اس مدت کے دوران میں جو میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان تھی، میں سفر پر گیا۔ کہا: اس اثنا میں، جب میں شام میں تھا، ہرقل، یعنی شامِ روم کے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک خط لایا گیا۔ کہا: اسے دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ لے کر آئے اور حاکم بُصریٰ کے حوالے کیا، بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل تک پہنچا دیا تو ہرقل نے کہا: کیا اس شخص کی قوم میں سے، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، کوئی شخص یہاں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا: تو قریش کے کچھ افراد سمیت مجھے بلایا گیا، ہم ہرقل کے پاس آئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا: تم میں سے نسب میں اس آدمی کے سب سے زیادہ قریب کون ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان نے کہا: میں نے جواب دیا: میں ہوں۔ تو ان لوگوں نے مجھے ان کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور اس سے کہا: ان سے کہہ دو: میں اس آدمی سے اس شخص کے بارے میں پوچھنے لگا ہوں جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا۔ کہا: ابوسفیان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی تو میں جھوٹ بولتا۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا:
اس سے پوچھو: تم میں اس کا حسب (خاندان) کیسا ہے؟
کہا: میں نے جواب دیا: وہ ہم میں حسب والا ہے۔
اس نے پوچھا: کیا اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟
میں نے جواب دیا: نہیں۔
اس نے پوچھا: کیا اس نے (نبوت کے حوالے سے) کو کہا،
اس کے کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟
میں نے جواب دیا: نہیں۔
اس نے پوچھا: اس کے پیروکار کون لوگ ہیں؟ بڑے لوگ ہیں یا کمزور لوگ ہیں؟
میں نے جواب دیا: بلکہ کمزور لوگ ہیں۔
اس نے پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟
کہا: میں نے جواب دیا: نہیں، بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔
اس نے پوچھا: کیا ان میں سے کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اسے ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوتا ہے؟
میں نے جواب دیا: نہیں۔
اس نے پوچھا: کیا تم نے اس سے جنگ بھی کی ہے؟
میں نے جواب دیا: ہاں۔
اس نے پوچھا: تو تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی؟
میں نے جواب دیا: ہمارے اور اس کے درمیان جنگ کنویں کے ڈول کی طرح ہے، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے اور ہم اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس نے پوچھا: کیا وہ بدعہدی کرتا ہے؟
میں نے جواب دیا: نہیں، ہم اس کی جانب سے (کی گئی) صلح کے زمانے میں ہیں، ہمیں معلوم نہیں،وہ اس میں کیا کرے گا۔ کہا: اللہ کی قسم! اس ایک کلمے کے سوا اس میں کوئی اور بات ملانا میرے لیے ممکن نہ ہوا۔
اس نے پوچھا: کیا اس سے پہلے کسی نے وہ بات کہی ہے؟
میں نے جواب دیا: نہیں۔
اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو: میں نے تم سے اس کے حسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ تم میں (اونچے) حسب والا ہے۔ رسول اسی طرح ہوتے ہیں، اپنی قوم کے اعلیٰ خاندانوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ اور میں نے پوچھا: کیا اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے دعویٰ کیا: نہیں، میں نے (دل میں) کہا: اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا: وہ آدمی اپنے آباء کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا: وہ کمزور لوگ ہیں یا اشراف ہیں؟ تو تم نے کہا: بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں، رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ جو وہ کہتا ہے اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے تو تم نے کہا: نہیں، اس طرح میں جان گیا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے مگر اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناراض ہو کر اس کے دین سے نکلا ہے؟ تو تم نے کہا: نہیں، ایمان جب دلوں میں رچ بس جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں، ایمان ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا تم نے اس سے لڑائی کی؟ تو تم نے کہا کہ (ہاں) تم نے اس سے لڑائی کی ہے اور تمہارے اور اس کے درمیان جنگ ڈول کی طرح ہے، وہ تم میں سے لوگوں کو قتل کرتا ہے اور تم اس کے لوگوں میں سے قتل کرتے ہو، رسول اسی طرح ہوتے ہیں، انہیں آزمایا جاتا ہے، پھر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں، وہ بدعہدی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی (کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟) تو تم نے کہا: نہیں، میں نے (دل میں) کہا: اگر کسی نے اس سے پہلے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا: یہ آدمی وہی بات کہنا چاہتا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے۔ کہا: پھر اس نے پوچھا: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاکبازی کا حکم دیتا ہے۔ اس نے کہا: اگر تم جو اس کے بارے میں کہتے ہو، سچ ہے، تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ان سے ملنے کو محبوب رکھوں۔ اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا اور ان کی حکومت اس زمین تک پہنچ کر رہے گی جو میرے قدموں کے نیچے ہے۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا اور اسے پڑھا تو اس میں (لکھا) تھا: اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے، اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے شاہ، روم ہرقل کے نام، اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا، اس کے بعد، میں تمہیں اسلام کے بلاوے کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی پا لو گے، اسلام قبول کر لو، اللہ تمہیں دو بار اجر دے گا اور اگر تم نے منہ موڑ لیا تو کسانوں (عام لوگوں) کا گناہ (جو تمہارے پیچھے چلتے ہیں) تم پر ہو گا۔ اور ’’اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جیسی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں، ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیں، (تم) گواہ رہو کہ ہم فرماں بردار (اسلام قبول کرنے والے) ہیں۔‘‘ جب وہ خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور شور بڑھ گیا، اس نے ہمارے بارے میں حکم دیا تو ہمیں باہر بھیج دیا گیا۔ کہا: جب ہم باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بہت بڑا ہو گیا ہے، اس سے تو بنو اصفر (اہل روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ کہا: اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ وہ غالب آئیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھ میں اوپر سے (غالب کر کے) اسلام داخل کر دیا۔