تشریح:
فائدہ:
اس حدیث میں دو جگہ اشکال ہے۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی شام سے آمد کی خبر ملی تو آپﷺ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور انھوں نے عرض کی، ہم آپﷺ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ اہل مغازی اور محدثین کی بیان کردہ دیگر روایات میں ہے کہ جس مشورے کے دوران والی لوگوں کی باتیں اس حدیث میں نقل کی گئی ہیں وہ مشورہ مدینہ میں، ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کی خبر سن کر نہیں ہوا تھا بلکہ بدر کے قریب مقام صفراء میں ہوا تھا، جب ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے بچ کر نکل جانے اور اہل مکہ کی فوج کی آمد کی خبر ملی تھی۔ ہاں مدینہ میں ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کی خبر سن کر بھی مشورہ ہوا لیکن جو گفتگو اس حدیث میں نقل کی گئی ہے وہ اس موقع پر نہیں کی گئی۔ غالباً کسی بیان کرنے والے راوی کی اختصار پسندی کی بنا پر خلل پیدا ہوا۔ دوسرا اشکال اس موقع پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب گفتگو کے حوالے سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے، شریک معرکہ سعد بن معاذ تھے اور انھوں نے یہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ مفصل گفتگو فرمائی تھی۔ جسے سن کر رسول اللہ ﷺ بہت مطمئن بلکہ راضی ہوئے تھے۔ یہ بھی کسی راوی کا وہم ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیتے ہوئے وہ نسب کے حوالے سے وہم کا شکار ہو گیا اور سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی جگہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہہ دیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔