قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ غَزْوَةِ ذِي قَرَدٍ وَغَيْرِهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1806. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، ( يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ) , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ : سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ يَقُولُ : خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى, وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدٍ, قَالَ : فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ, فَقَالَ : أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . فَقُلْتُ : مَنْ أَخَذَهَا ؟ قَالَ : غَطَفَانُ . قَالَ : فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ : يَا صَبَاحَاهْ, قَالَ : فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ , ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ بِذِي قَرَدٍ, وَقَدْ أَخَذُوا يَسْقُونَ مِنَ الْمَاءِ, فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي, وَكُنْتُ رَامِيًا, وَأَقُولُ : أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ, وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً . قَالَ : وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ, فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللهِ, إِنِّي قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ, فَابْعَثْ إِلَيْهِمُ السَّاعَةَ, فَقَالَ : يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ قَالَ : ثُمَّ رَجَعْنَا, وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ .

مترجم:

1806.

یزید بن عبید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں (دن کی) پہلی نماز (فجر) کی اذان سے قبل (مدینہ کی آبادی سے) نکلا۔ رسول اللہﷺ کی اونٹنیاں ذی قرد ( کے مقام) پر چرتی تھیں۔ مجھے عبدالرحمان بن عوف کا غلام ملا تو اس نے کہا: رسول اللہﷺ کی دودھ والی اونٹنیاں پکڑ لی گئی ہیں۔ میں نے پوچھا: کس نے پکڑی ہیں؟ اس نے کہا: (بند) غطفان نے۔ کہا: میں نے بلند آواز سے’’یا صباحاہ‘‘ (ہائے صبح کا حملہ) کہہ کر تین بار آواز دی اور مدینہ کے دونوں طرف کی سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیان (مدینہ) کے سبھی لوگوں کو ینا دی، پھر میں نے سر پٹ دوڑ لگا دی حتی کہ ذی قرد کے مقام پر انہیں جا لیا۔ انہوں نے واقعی (اونٹنیاں) پکڑی ہوئی تھیں، وہ پانی پلا رہے تھے تو میں انہیں اپنے تیروں سے نشانہ بنانے لگا، میں ایک ماہر تیر انداز تھا اور میں کہہ رہا تھا: ’’میں اکوع کا بیٹا ہوں، آج ماؤں کا دودھ پینے والوں کا دن ہے۔‘‘ میں رجزیہ اشعار کہتا رہا ( اور تیر چلاتا رہا) حتی کہ میں نے ان سے اونٹنیاں چھڑا لیں اور ان سے ان کی تیس چادریں بھی چھیں لیں، کہا: نبیﷺ اور لوگ پہنچ گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ! میں نے لوگوں کو پانے پینے سے روک دیا تھا اور (اب بھی) وہ پیاسے ہیں، آپ ابھی ان کے تعاقب میں دستہ بھیج دیں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ابن اکوع! تم غالب آ گئے ہو،(اب ) نرمی سے کام لو۔‘‘ کہا: پھر ہم واپس ہوئے، رسول اللہﷺ نے مجھے اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کر لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔