قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْيَةِ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

182. حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ نَاسًا قَالُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟» قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟» قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: " فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ، كَذَلِكَ يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ، فَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ، هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ تَعَالَى فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا فَيَتَّبِعُونَهُ وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ، وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللهُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ؟ " قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: " فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمُ الْمُجَازَى حَتَّى يُنَجَّى، حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مِنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ اللهُ تَعَالَى أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ، يَعْرِفُونَهُمْ بِأَثَرِ السُّجُودِ، تَأْكُلُ النَّارُ مِنَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ، حَرَّمَ اللهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ وَقَدِ امْتَحَشُوا، فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ مِنْهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَيَبْقَى رَجُلٌ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا، وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَدْعُو اللهَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَدْعُوَهُ، ثُمَّ يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فَعَلْتُ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، وَيُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ مَا شَاءَ اللهُ، فَيَصْرِفُ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ، قَدِّمْنِي إِلَى بَابُِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُكَ، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، يَدْعُو اللهَ حَتَّى يَقُولَ لَهُ: فَهَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ، فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ اللهُ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابُِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا قَامَ عَلَى بَابُِ الْجَنَّةِ انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَرَأَى مَا فِيهَا مِنَ الْخَيْرِ وَالسُّرُورِ، فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ؟، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، لَا أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو اللهَ حَتَّى يَضْحَكَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْهُ، فَإِذَا ضَحِكَ اللهُ مِنْهُ قَالَ: ادْخُلْ الْجَنَّةَ، فَإِذَا دَخَلَهَا قَالَ اللهُ لَهُ: تَمَنَّهْ، فَيَسْأَلُ رَبَّهُ وَيَتَمَنَّى حَتَّى إِنَّ اللهَ لَيُذَكِّرُهُ مِنْ كَذَا وَكَذَا، حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ، قَالَ اللهُ تَعَالَى: ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ "، قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا، حَتَّى إِذَا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ اللهَ قَالَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ: «وَمِثْلُهُ مَعَهُ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «وَعَشْرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ»، يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا حَفِظْتُ إِلَّا قَوْلَهُ: «ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَهُ: «ذَلِكَ لَكَ وَعَشْرَةُ أَمْثَالِهِ»، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ.

مترجم:

182.

یعقوب بن ابراہیمؒ نے حدیث بیان کی، کہا: میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہریؒ سے حدیث سنائی، انہوں نے عطاء بن یزید لیثیؒ سے روایت کی کہ ابو ہریرہؓ نے انہیں بتایا: کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، کہ اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے (اللہ) اسی طرح دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا، اسی کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ اس کے پیچھے چلا جائے گا، اور جو طاغوتوں (شیطانوں، بتوں وغیرہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتوں کے پیچھے چلا جائے گا، اور صرف یہ امت اپنے منافقوں سمیت باقی رہ جائے گی۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتے ہوں گے، پھر فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آ جائے۔ جب ہمارا رب آئے گا، ہم اسے پہچان لیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمہارا پروردگار ہوں۔ وہ کہیں گے، تو (ہی) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر (پل) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گا، تو میں اور میری امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا۔ اور رسولوں کی پکار (بھی) اس دن یہی ہو گی: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ (آنکڑے) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے، لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے؟ اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگ کو ان کے اعمال کی بناد پر اچک لیں گے۔ ان میں سے بعض ہلاک کیے جانے والے ہوں گے، یعنی اپنے عمل کیوجہ سے۔ اور ان میں کچھ ایسے ہونگے جنہیں نجات دییے جانے تک بدلہ چکانا ہو گا، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا، کہ اپنی رحمت سے جن دوزخیوں کو چاہتا ہے آگ سے نکالے، تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا: کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے "لا إله إلا اللہ"  کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا، انہیں آگ سے نکال لیں۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے، آگ سجدے کے نشانات کے سوا، آدم کے بیٹے (کی ہر چیز) کو کھا جائے گی۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گے، کہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے، ان پر آبِ حیات ڈالا جائے گا، تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اُگ آئیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اُگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا۔ بس ایک شخص باقی ہو گا، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا، یہی آدمی، تمام اہل جنت میں سے، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔ وہ عرض کرے گا: میرے رب! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے، کیونکہ اس کی بدبو نے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے۔ چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا، وہ اللہ کو پکارتا رہے گا، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا: کیا ایسا ہو گا، کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ (حسن سلوک) کر دوں، تو تم کچھ  اور مانگنا شروع کر دو گے؟ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ (لینا) چاہے گا، دے گا، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا، تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے (اتنی دیر) چپ رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے! آدم کے بیٹے! تم کس قدر عہد شکن ہو! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا، تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! (اور کچھ) نہیں (مانگوں گا۔) وہ اپنے رب کو جواللہ چاہے گا، عہد و پیمان دے گا، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا۔ پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا، تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھے گا۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے، کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم! تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بد نصیب شخص نہ بنوں، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا (تو) فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جا۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا، یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں چیز (مانگ) فلاں چیز (مانگ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ عطاء بن یزیدؒ نے کہا کہ ابو سعید خدریؓ بھی ابو ہریرہؓ کے ساتھ موجود تھے، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہؓ نے یہ بیان کیا: کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: ’’یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی‘‘ تو ابوسعیدؓ فرمانے لگے: ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا (اور بھی)، ابو ہریرہؓ نے کہا: مجھے تو آپ ﷺ کا یہی فرمان یاد ہے: ’’یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ ابو سعیدؓ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر آپ کا یہ فرمان یاد رکھا ہے: ’’یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی۔‘‘ ابو ہریرہؓ نے کہا: یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا۔