قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ الِاسْتِخْلَافِ وَتَرْكِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1823.01. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالَ إِسْحَاقُ: وَعَبْدٌ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقَالَتْ: أَعَلِمْتَ أَنَّ أَبَاكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ لِيَفْعَلَ، قَالَتْ: إِنَّهُ فَاعِلٌ، قَالَ: فَحَلَفْتُ أَنِّي أُكَلِّمُهُ فِي ذَلِكَ، فَسَكَتُّ حَتَّى غَدَوْتُ وَلَمْ أُكَلِّمْهُ، قَالَ: فَكُنْتُ كَأَنَّمَا أَحْمِلُ بِيَمِينِي جَبَلًا حَتَّى رَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَأَلَنِي عَنْ حَالِ النَّاسِ وَأَنَا أُخْبِرُهُ، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ مَقَالَةً، فَآلَيْتُ أَنْ أَقُولَهَا لَكَ، زَعَمُوا أَنَّكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ، وَإِنَّهُ لَوْ كَانَ لَكَ رَاعِي إِبِلٍ، أَوْ رَاعِي غَنَمٍ، ثُمَّ جَاءَكَ وَتَرَكَهَا رَأَيْتَ أَنْ قَدْ ضَيَّعَ فَرِعَايَةُ النَّاسِ أَشَدُّ، قَالَ: فَوَافَقَهُ قَوْلِي، فَوَضَعَ رَأْسَهُ سَاعَةً، ثُمَّ رَفَعَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ: «إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْفَظُ دِينَهُ، وَإِنِّي لَئِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدِ اسْتَخْلَفَ»، قَالَ: فَوَاللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَعْدِلَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا، وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ

مترجم:

1823.01.

سالم نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا، کہا: میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا، انہوں نے کہا: کیا تم کو علم ہے کہ تمہارے والد کسی کو (اپنا) جانشیں مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا: وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ کہنے لگیں: وہ یہی کرنے والے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: میں نے قسم کھائی کہ میں اس معاملے میں ان سے بات کروں گا، پھر میں خاموش ہو گیا حتی کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے اس معاملے میں بات نہیں کی تھی، اور مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں نے اپنے دائیں ہاتھ میں پہاڑ اٹھایا ہوا ہے (مجھ پر اپنی قسم کا بہت زیادہ بوجھ تھا) آخر کار میں واپس آیا اور ان کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا، میں آپ کو حالات سے باخبر کرنے لگا، پھر میں نے ان سے کہا: میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی اور وہ سن کر میں نے قسم کھائی کہ وہ میں آپ سے ضرور بیان کروں گا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشیں نہیں بنائیں گے اور بات یہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا ہو اور وہ آپ کے پاس چلا آئے اور ان کو ایسے ہی چھوڑ دے تو آپ یہی کہیں گے کہ اس نے ان کو ضائع کر دیا ہے۔ سو لوگوں کی نگہبانی تو اس سے زیادہ ضروری ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو میری رائے ٹھیک معلوم ہوئی، انہوں نے گھڑی بھر سر جھکائے رکھا، پھر میری طرف سر اٹھا کر فرمایا: بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں کسی کو جانشیں نہ بناؤں تو رسول اللہ ﷺ نے کسی کو جانشیں مقرر نہیں کیا تھا اور اگر میں کسی کو جانشیں بناؤں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جانشیں بنایا تھا۔ (دونوں میں سے کسی بھی مثال پر عمل کیا جا سکتا ہے۔) انہوں (حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) نے کہا: اللہ کی قسم! جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے کبھی نہیں ہٹیں گے اور وہ کسی کو جانشیں بنانے والے نہیں۔