قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْيَةِ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

183. وَحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا فِي زَمَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ» قَالَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ صَحْوًا لَيْسَ مَعَهَا سَحَابٌ؟ وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ صَحْوًا لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ؟» قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: " مَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ لِيَتَّبِعْ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللهِ سُبْحَانَهُ مِنَ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ وَغُبَّرِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَيُدْعَى الْيَهُودُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللهِ، فَيُقَالُ: كَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَمَاذَا تَبْغُونَ؟ قَالُوا: عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا، فَاسْقِنَا، فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ؟ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللهِ، فَيُقَالُ لَهُمْ، كَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، فَيُقَالُ لَهُمْ: مَاذَا تَبْغُونَ؟ فَيَقُولُونَ: عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا، فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ؟ فَيُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ تَعَالَى مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا قَالَ: فَمَا تَنْتَظِرُونَ؟ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، قَالُوا: يَا رَبَّنَا، فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا أَفْقَرَ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ لَا نُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، حَتَّى إِنَّ بَعْضَهُمْ لَيَكَادُ أَنْ يَنْقَلِبَ، فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ فَتَعْرِفُونَهُ بِهَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِهِ إِلَّا أَذِنَ اللهُ لَهُ بِالسُّجُودِ، وَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِيَاءً إِلَّا جَعَلَ اللهُ ظَهْرَهُ طَبَقَةً وَاحِدَةً، كُلَّمَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ خَرَّ عَلَى قَفَاهُ، ثُمَّ يَرْفَعُونَ رُءُوسَهُمْ وَقَدْ تَحَوَّلَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، ثُمَّ يُضْرَبُ الْجِسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ، وَتَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَيَقُولُونَ: اللهُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ " قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا الْجِسْرُ؟ قَالَ: " دَحْضٌ مَزِلَّةٌ، فِيهِ خَطَاطِيفُ وَكَلَالِيبُ وَحَسَكٌ تَكُونُ بِنَجْدٍ فِيهَا شُوَيْكَةٌ يُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ، فَيَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ كَطَرْفِ الْعَيْنِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّيحِ، وَكَالطَّيْرِ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَمَخْدُوشٌ مُرْسَلٌ، وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، حَتَّى إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ فِي النَّارِ، يَقُولُونَ: رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ وَيَحُجُّونَ، فَيُقَالُ لَهُمْ: أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ، فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّارِ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا قَدِ أَخَذَتِ النَّارُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ، وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا مَا بَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ، فَيَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا "، وَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ يَقُولُ: إِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي بِهَذَا الْحَدِيثِ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا} [النساء: 40]، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: شَفَعَتِ الْمَلَائِكَةُ، وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ، وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ، وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ قَدْ عَادُوا حُمَمًا، فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهَرٍ فِي أَفْوَاهِ الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ: نَهَرُ الْحَيَاةِ، فَيَخْرُجُونَ كَمَا تَخْرُجُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، أَلَا تَرَوْنَهَا تَكُونُ إِلَى الْحَجَرِ، أَوْ إِلَى الشَّجَرِ، مَا يَكُونُ إِلَى الشَّمْسِ أُصَيْفِرُ وَأُخَيْضِرُ، وَمَا يَكُونُ مِنْهَا إِلَى الظِّلِّ يَكُونُ أَبْيَضَ؟ " فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، كَأَنَّكَ كُنْتَ تَرْعَى بِالْبَادِيَةِ، قَالَ: " فَيَخْرُجُونَ كَاللُّؤْلُؤِ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِمُ، يَعْرِفُهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللهِ الَّذِينَ أَدْخَلَهُمُ اللهُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ، وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ، ثُمَّ يَقُولُ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ فَمَا رَأَيْتُمُوهُ فَهُوَ لَكُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا، أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ، فَيَقُولُ: لَكُمْ عِنْدِي أَفْضَلُ مِنْ هَذَا، فَيَقُولُونَ: يَا رَبَّنَا، أَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ هَذَا؟ فَيَقُولُ: رِضَايَ، فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا».

مترجم:

183.

حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓسےروایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں (آپ سے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیاہم قیامت کے دن اپنےرب کو دیکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (ہاں) فرمایا: ’’ کیا دو پہر کے وقت صاف مطلع میں، جب ابر نہ ہوں، سورج کو دیکھتے ہوئے تمہیں کوئی زحمت ہوتی ہے؟ اور کیا پورے چاند کی رات کو جب مطلع صاف ہو اور ابر نہ ہوں تو چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کےرسول نہیں! فرمایا: ’’قیامت کے روز اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنے میں اس سے زیادہ دقت نہ ہوگی، جتنی ان دونوں میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ جب قیامت کا دن ہو گا، ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا: ہر امت اس کے پیچھے چلے جس کی وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ کوئی آدمی ایسا نہ بچے گا جو اللہ کے سوا بتوں اور پتھروں کو پوجتا تھا مگر وہ آ گ میں جا گرے گا حتی کہ جب ان کے سوا جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، وہ نیک ہوں یا بد، اور اہل کتاب کے بقیہ (بعد کے دور) لوگوں کےسوا کوئی نہ بچے گا، تو یہود کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے، تو کہا جائے گا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا، تو (اب) کیا چاہتے ہو؟ کہیں گے: پروردگار! ہمیں پیاس لگی ہے ہمیں پانی پلا۔ تو ان کو اشارہ کیا جائے گا کہ تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر ا نہیں اکٹھا کر کے آگ کی طرف ہانک دیا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو توڑ رہا ہو گا، اوروہ سب (ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے کہاجائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے مسیح کو پوجتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ نے نہ کوئی بیوی بنائی نہ کوئی بیٹا، پھر ان سے کہا جائے گا! (اب) تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم پیاسے ہیں، ہمارے پروردگار! ہمیں پانی پلا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کواشارہ کیا جائے گا، تم پانی (کے گھاٹ) پر کیوں نہیں جاتے؟ پھر انہیں اکٹھا کر کے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، وہ سراب کی طرح ہو گی (اور) اس کا ایک حصہ (شدت اشتعال سے) دوسرے کو توڑ رہا ہو گا، وہ ( ایک دوسرے کے پیچھے) آگ میں گرتے چلے جائیں گے، حتی کہ جب ان کے سوا کوئی نہ بچے گا جو اللہ تعالیٰ (ہی) کی عبادت کرتے تھے، نیک ہوں یا بد، (تو) سب جہانوں کا رب سبحان و تعالیٰ ان کی دیکھی ہوئی صورت سے کم تر (یا مختلف) صورت میں آئے گا (اور) فرمائے گا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہر امت اس کے پیچھے جا رہی ہے جس کی وہ عبادت کرتی تھی۔ وہ (سامنے ظاہر ہونے والی صورت کے بجائے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر) التجا کریں گے: اےہمارے رب! ہم دنیا میں سب لوگوں سے، جتنی شدید بھی ہمیں ان کی ضرورت تھی الگ ہو گئے، ہم نے ان کاساتھ نہ دیا۔ وہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے: ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (دو یا تین دفعہ یہی کہیں گے) یہاں تک کہ ان میں بعض لوگ بدلنے کے قریب ہو ں گے، تو وہ فرمائے گا: کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی نشانی (طے) ہے، جس سے تم اس کو پہچان سکو؟ وہ جواب دیں گے: ہاں! تو پنڈلی ظاہر کر دی جائے گی پھر کوئی ایسا شخص نہ بچے گا جو اپنے دل سے اللہ کو سجدہ کرتا تھا مگر اللہ اسے سجدے کی اجازت دے گا، اور کوئی ایسا نہ بچے گا جو جان بچانے کےلیے یا دکھاوے کےلیے سجدہ کرتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی پشت کو ایک ہی مہرہ بنادے گا، جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی گدی کے بل گر پڑے گا۔ پھر وہ (سجدے سے) اپنے سر اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس صورت میں آ چکا ہو گا جس میں انہوں نے اس کو (سب سے) پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ تووہ کہیں گے: (ہاں) تو ہی ہمارا رب ہے۔ پھر جہنم پر پل دیا جائے گا اور سفارش کا دروازہ کھل جائے گا، اور (سب رسول) کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جسر (پل) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’بہت پھسلنی، ڈگمگا دینے والی جگہ ہے، اس میں اچک لینےوالے آنکڑے اور کئی کئی نوکوں والے کنڈے ہیں، اور اس میں کانٹے دار پودے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں جنہیں سعدان کہا جاتا ہے۔ تو مومن آنکھ کی جھپک کی طرح اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، کوئی صحیح سالم نجات پانے والا ہو گا اور کوئی زخمی ہو کر چھوڑ دیا جانے والا، اور کچھ جہنم کی آگ میں تہ بہ تہ لگا دیے جانے والے، یہاں تک کہ جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے، تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے! تم میں سے کوئی پورا پورا حق وصول کرنے (کے معاملے) میں اس قدر اللہ سے منت اور آہ وزاری نہیں کرتا جس قدر قیامت کے دن مومن اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ہوں گے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اورحج کرتے تھے۔ تو ان سے کہا جائے گا: تم جن کو پہچانتے ہو انہیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ تو وہ بہت سے لوگوں کونکال لائیں گے، جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ تو وہ فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کےدل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ   اس کو نکال لاؤ، تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم نے دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ  اس کو نکال لاؤ، تو وہ (پھرسے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے، ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نےحکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ! جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر خیر پاؤ، اس کو نکال لاؤ، تو وہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔‘‘ (ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہوسکتا ہے ۔)

ابو سعید خدری ؓکہا کرتے تھے: اگر تم اس حدیث میں میری تصدیق نہیں کرتے، تو چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اس کو بڑھاتا ہے او راپنی طرف سے اجر عظیم دیتا ہے۔‘‘  ’’پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا، تو وہ آ ‎گ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا، اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر (بہنے والی) ایک نہر میں ڈال دے گا، جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے، وہ اس طرح (اُگ کر) نکل آئیں گے جس طرح (گھاس کا) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے، کیا تم اسے دیکھتے نہیں ہو کہ کبھی وہ پتھر کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور کبھی درخت کے ساتھ، جوسورج کے رخ پر ہوتا ہے، وہ زرد اور سبز ہوتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے، وہ سفید ہوتا ہے ؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا لگتا ہے کہ آپ جنگل میں جانور چرایا کرتے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تووہ لوگ (نہرسے) موتیوں کے مانند نکلیں گے، ان کی گردنوں میں مہریں ہو ں گی، اہل جنت (بعد ازاں) ان کو ( اس طرح) پہچانیں گے، کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آزاد کیے ہوئے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بغیر کسی نیکی کے جو انہوں نے آگے بھیجی ہو، جنت میں داخل کیا ہے۔ پھر وہ فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ! اور جو تمہیں نظر آئے وہ تمہارا ہے ، اس پر وہ کہیں گے : اےہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سےکسی کو نہیں دیا۔ تو وہ فرمائے گا: تمہارے میرے پاس اس سے بڑھ کر کون سی چیز ( ہوسکتی ) ہے؟ تو وہ فرمائے گا: میری رضا کہ اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔‘‘