قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

191.04. وَحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ الْفَقِيرُ، قَالَ: كُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ، فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ نُرِيدُ أَنْ نَحُجَّ، ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: فَمَرَرْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، جَالِسٌ إِلَى سَارِيَةٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَكَرَ الْجَهَنَّمِيِّينَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُونَ؟ وَاللهُ يَقُولُ: {إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ} [آل عمران: 192] وَ {كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا} [السجدة: 20]، فَمَا هَذَا الَّذِي تَقُولُونَ؟ قَالَ: فَقَالَ: «أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ - يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اللهُ فِيهِ -؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَحْمُودُ الَّذِي يُخْرِجُ اللهُ بِهِ مَنْ يُخْرِجُ»، قَالَ: ثُمَّ نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ، وَمَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ، - قَالَ: وَأَخَافُ أَنْ لَا أَكُونَ أَحْفَظُ ذَاكَ - قَالَ: غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ زَعَمَ أَنَّ قَوْمًا يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ بَعْدَ أَنْ يَكُونُوا فِيهَا، قَالَ: - يَعْنِي - فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمْ عِيدَانُ السَّمَاسِمِ، قَالَ: «فَيَدْخُلُونَ نَهَرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، فَيَغْتَسِلُونَ فِيهِ، فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيسُ»، فَرَجَعْنَا قُلْنَا: وَيْحَكُمْ أَتُرَوْنَ الشَّيْخَ يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَجَعْنَا فَلَا وَاللهِ مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ، أَوْ كَمَا قَالَ: أَبُو نُعَيْمٍ.

مترجم:

191.04.

ابو عاصم،یعنی: محمد بن ابی ایوب نے کہا: مجھے یزید الفقیر نےحدیث سنائی، انہوں نے کہا: کہ خارجیوں کے نظریات میں سے ایک بات میرے دل میں گھر کر گئی تھی، ہم ایک جماعت میں نکلے جس کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کریں، اور پھر لوگوں کے خلاف خروج کریں (جنگ کریں ۔) ہم مدینہ سے گزرے، تو ہم نےدیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہؓ  (ایک ستون کے پاس بیٹھے) لوگوں کو رسول اللہﷺ کی احادیث سنا رہے ہیں، انہوں نے اچانک «الْجَهَنَّمِيِّيْن» (جہنم سے نکل کر جنت میں پہنچنے والے لوگوں) کا تذکرہ کیا، تو میں ان سے پوچھا: اے رسول اللہ کے ساتھی! یہ آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ فرماتا ہے: ’’بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا اس کو رسوا کر دیا۔‘‘ اور  ’’وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔‘‘ تویہ کیا بات ہے، جو آپ کہہ رہے ہیں؟ ( یزیدنے) کہا: انہوں نے (جواب میں ) کہا: ’’کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: ہاں! انہوں نے کہا: ’’کیا تم نے محمدﷺ کے مقام کے بارے میں سنا ہے، یعنی وہ مقام جس پر قیامت کے دن آپ ﷺ کو مبعوث کیا جائے گا؟‘‘ میں نے کہا: ہاں! انہوں نے کہا: ’’بے شک و ہ محمدﷺ کا مقام محمود ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں (جہنم سے ) نکالنا ہو گا نکالے گا۔‘‘ پھر انہو ں نے (جہنم پر) پل رکھے جانے، اور اس پر سے لوگوں کے گزرنے کا منظر بیان کیا۔ (یزید نے) کہا: مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکا ہوں، سوائے اس کے کہ انہوں نے بتایا: ’’کچھ لوگ جہنم میں چلے جانے کے بعد اس سے نکلیں گے، یعنی انہوں نےکہا: وہ اس طرح نکلیں گے، جیسے وہ ’’تلوں‘‘(کےپودوں) کی لکڑیاں ہوں، وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہوں گے اور اس میں نہائیں گے، پھر اس میں سے (کورے) کاغذوں کی طرح (ہوکر) نکلیں گے۔‘‘ پھر (یہ حدیث سن کر ) ہم واپس آئے اورہم نے کہا: تم پر افسوس! کیا تم یہ سمجھتے ہو، کہ یہ بوڑھا (صحابی حضرت جابرؓ) رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھ رہا ہے ؟ اور ہم نے (سابقہ رائے سے) رجوع کر لیا۔ اللہ کی قسم! ہم میں سے ایک آدمی کے سوا کسی نے خروج نہ کیا، یا جس طرح (کے الفاظ میں) ابو نعیم نے کہا۔