تشریح:
فوائدومسائل:
(1) فرع کی مذکورہ بالا تعریف غالباً امام زہری کی طرف سے ہے جو ان کے شاگردوں نے آگے حدیث کے ساتھ ہی بیان کر دی ہے تاکہ مفہوم واضح ہو جائے۔ عتیرہ سے مراد رجب کے آغاز میں کی جانے والی قربانی ہے
(2) ہم نے فرع کا ترجمہ ’’پہلوٹھا بچہ کرنا واجب/ جائز‘‘ دونوں طرح سے کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ میں اجمال ہے۔ صراحت نہیں کہ اس میں جواز کی نفی کی جا رہی ہے یا وجوب کی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وجوب کی نفی کرتے ہیں۔ پہلوٹھا بچہ اگر اللہ کی رضا کےلیے ذبح کیا جائے، تو وہ اسے جائز سمجھتے ہیں کتب سنن میں مخنف بن سلیم سے مروی حدیث میں اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے یہ الفاظ مروی ہیں (یايها الناس علي كل اهل بيت في كل عام أضحية و عتيرة، هل تدرون ماالعتيرة؟ هي: التي تسمونها الرجبية) ’’لوگو! ہر گھر والوں کے ذمے ہر سال ایک قربانی اور عتیرہ ہے، جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے تم رجبیہ کا نام دیتے ہو‘‘ (جامع ترمذي، حديث :1518) اسی طرح حارث بن عمرو سے یہ الفاظ مروی ہیں : (فقال رجل من الناس: يا رسول الله ﷺ العتائر والفرائع قال: من شاء عتر و من شاء لم يعتر، و من شاء فرع و من شاء لم يفرع) ’’ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ عتائر اور فرائع؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو چاہے عتیرہ کرے اور جو چاہے نہ کرے اور جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے‘‘ (سنن النسائی، حدیث : 4231) بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عتیرہ یا رجبیہ زمانۂجاہلیت میں بتوں کے نام پر ذبح کیے جاتے تھے، اسلام کے بعد لوگوں نے اسے اللہ کے نام پر ذبح کرنا شروع کر دیا لیکن ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کبھی اس کے جواز کا اعلان نہ فرماتے۔ عتیرہ رجب کے مہینے میں کی جانے والے قربانی تھی۔ رجب بھی حرمت والا مہینہ ہے اور لوگ اس میں بکثرت عمرہ کرتے تھے اور قربانیاں کرتے تھے۔ اب اس حدیث کے بعد، جو اوپر مذکور ہوئی ہے، اس کا استحباب یا جواز جو بھی تھا منسوخ ہو گیا ہے۔