قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: شمائل

صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2057.01. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ نَزَلَ عَلَيْنَا أَضْيَافٌ لَنَا قَالَ وَكَانَ أَبِي يَتَحَدَّثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اللَّيْلِ قَالَ فَانْطَلَقَ وَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ افْرُغْ مِنْ أَضْيَافِكَ قَالَ فَلَمَّا أَمْسَيْتُ جِئْنَا بِقِرَاهُمْ قَالَ فَأَبَوْا فَقَالُوا حَتَّى يَجِيءَ أَبُو مَنْزِلِنَا فَيَطْعَمَ مَعَنَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُمْ إِنَّهُ رَجُلٌ حَدِيدٌ وَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا خِفْتُ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ أَذًى قَالَ فَأَبَوْا فَلَمَّا جَاءَ لَمْ يَبْدَأْ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنْهُمْ فَقَالَ أَفَرَغْتُمْ مِنْ أَضْيَافِكُمْ قَالَ قَالُوا لَا وَاللَّهِ مَا فَرَغْنَا قَالَ أَلَمْ آمُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ وَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ فَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ فَتَنَحَّيْتُ قَالَ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي إِلَّا جِئْتَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ مَا لِي ذَنْبٌ هَؤُلَاءِ أَضْيَافُكَ فَسَلْهُمْ قَدْ أَتَيْتُهُمْ بِقِرَاهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يَطْعَمُوا حَتَّى تَجِيءَ قَالَ فَقَالَ مَا لَكُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ قَالَ فَقَالُوا فَوَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ قَالَ فَمَا رَأَيْتُ كَالشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ قَطُّ وَيْلَكُمْ مَا لَكُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا الْأُولَى فَمِنْ الشَّيْطَانِ هَلُمُّوا قِرَاكُمْ قَالَ فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَسَمَّى فَأَكَلَ وَأَكَلُوا قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَرُّوا وَحَنِثْتُ قَالَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ قَالَ وَلَمْ تَبْلُغْنِي كَفَّارَةٌ

مترجم:

2057.01.

جریری نے ابوعثمان سے، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: ہمارے ہاں ہمارے کچھ مہمان آئے، میرے والد رات کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے، وہ چلے گئے اور مجھ سے فرمایا: عبدالرحمان! تم اپنے مہمانوں کی سب خدمت بجا لانا۔ جب شام ہوئی تو ہم نے (ان کے سامنے) کھانا پیش کیا، کہا: تو انھوں نے انکار کردیا اور کہا: جب گھر کے مالک (بچوں کے والد) آئیں گے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے (ہم اس وقت کھانا کھائیں گے۔) کہا: میں نے ان کو بتایا کہ وہ (میرے والد) تیز مزاج آدمی ہیں، اگر تم نے کھانا نہ کھایا تو مجھے خدشہ ہے کہ مجھے ان کی طرف سے سزا ملے گی۔ کہا: لیکن وہ نہیں مانے، جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو ان (کے متعلق پوچھنے) سے پہلے انھوں نے کوئی (اور) بات شروع نہ کی۔ انھوں نے کہا: مہمانوں (کی میزبانی) سے فارغ ہوگئے ہو؟ گھر والوں نے کہا: واللہ! ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا میں نے عبدالرحمان کو کہا نہیں تھا؟ (حضرت عبدالرحمان نے) کہا: میں ایک طرف ہٹ گیا، انھوں نے آواز دی: عبدالرحمان! میں کھسک گیا۔ پھر انہوں نے کہا: اے احمق! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آوازسن رہا ہے تو آجا۔ حضرت عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں آگیا اور میں نے کہا: اللہ کی قسم! میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ ہیں آپ کے مہمان، ان سے پوچھ لیجئے، میں ان کا کھانا ان کے پاس لایا تھا، انہوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کردیا، (عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا تو انھوں (حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے (ان سے) کہا: کیا بات ہے؟ تم نے ہمارا پیش کیا ہواکھانا کیوں قبول نہیں کیا؟ (عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں آج رات یہ کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے، جب تک آپ نہیں کھاتے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس شر جیسا (شر)، اس رات جیسی (رات) میں نے کبھی نہیں دیکھی، تم لوگوں پر افسوس! تمھیں کیا ہے؟ تم لوگوں نے ہماری دعوت قبول کیوں نہیں کی؟ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: (میری) پہلی بات (نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے (ابھارنے پر) تھی۔ چلو،اپنا میزبانی کا کھانا لاؤ۔ حضرت عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: پھر کھانا لایا گیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، صبح ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول ﷺ! ان لوگوں نے قسم پوری کرلی اور میں نے توڑدی (کہا) پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کو پورا واقعہ سنایا، (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: ’’نہیں، تم ان سے بڑھ کر قسم پوری کرنے والے ہو، ان سے بہتر ہو،‘‘ (حضرت عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: مجھ تک کفارہ دینے کی بات نہیں پہنچی (مجھے معلوم نہیں کہ میرے والد نے کفارہ دیا یا کب دیا۔)