قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ (بَابُ تَحرِیمِ لُبسِ الحَرِیرِوَغَیرِ ذٰالِکَ لِلرِّجَالِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2068.02. و حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَأَى عُمَرُ عُطَارِدًا التَّمِيمِيَّ يُقِيمُ بِالسُّوقِ حُلَّةً سِيَرَاءَ وَكَانَ رَجُلًا يَغْشَى الْمُلُوكَ وَيُصِيبُ مِنْهُمْ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَأَيْتُ عُطَارِدًا يُقِيمُ فِي السُّوقِ حُلَّةً سِيَرَاءَ فَلَوْ اشْتَرَيْتَهَا فَلَبِسْتَهَا لِوُفُودِ الْعَرَبِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ وَأَظُنُّهُ قَالَ وَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلَلٍ سِيَرَاءَ فَبَعَثَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ وَبَعَثَ إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ بِحُلَّةٍ وَأَعْطَى عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ حُلَّةً وَقَالَ شَقِّقْهَا خُمُرًا بَيْنَ نِسَائِكَ قَالَ فَجَاءَ عُمَرُ بِحُلَّتِهِ يَحْمِلُهَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ وَقَدْ قُلْتَ بِالْأَمْسِ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ فَقَالَ إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا وَلَكِنِّي بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُصِيبَ بِهَا وَأَمَّا أُسَامَةُ فَرَاحَ فِي حُلَّتِهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرًا عَرَفَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْكَرَ مَا صَنَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَنْظُرُ إِلَيَّ فَأَنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِهَا فَقَالَ إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا وَلَكِنِّي بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتُشَقِّقَهَا خُمُرًا بَيْنَ نِسَائِكَ

مترجم:

2068.02.

جریر بن حازم نے کہا: ہمیں نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت بیان کی، کہا: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ عُطارد تمیمی بازار میں ایک ریشمی حلہ (بیچنے کے لیے) اس کی قیمت بتا رہا ہے۔ یہ بادشاہوں کے پاس جایا کرتا تھا اور ان سے انعام واکرام وصول کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے عطارد کو دیکھا ہے، وہ بازار میں ایک ریشمی حلہ بیچ رہا ہے، آپ اسے خرید لیتے تو جب آپ کے پاس عرب کے وفود آتے (اس وقت) آپ اس کو زیب تن فرماتے اور میرا خیال ہے (یہ بھی) کہا: اور جمعہ کے دن بھی آپ اسے زیب تن فرماتے۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’دنیا میں ریشم صرف وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‘‘ اس واقعے کے بعد (کا ایک دن آیا تو) رسول اللہ ﷺ کے پاس کئی ریشمی حلے آئے، آپ نے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھی بھیجا، ایک حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور ایک حلہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور فرمایا: ’’اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کو دوپٹے بنا دو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حلے کو اٹھا کر لائے اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے یہ حلہ میرے پاس بھیجا ہے، حالانکہ آپ نے کل ہی عطارد کے حلے کے متعلق فرمایا تھا، جو آپﷺ نے فرمایا تھا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمھارے پاس یہ حلہ اس لیے نہیں بھیجا کہ اسے تم خود پہنو، بلکہ میں نے تمھارے پاس یہ اس لیے بھیجا ہے کہ تم کچھ (فائدہ) حاصل کرو۔‘‘ تو رہے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو وہ اپنا حلہ پہن کر آگئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس طرح دیکھا، جس سے انھیں پتہ چل گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کا ایسا کرنا پسند نہیں آیا، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ آپ ہی نے تو اسے میرے پاس بھیجا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمھا رے پاس اسلیے نہیں بھیجا تھا کہ تم خود اس کو پہن لو، بلکہ میں نے اس لیے اس حلے کو تمھارے پاس بھیجا تھا کہ تم اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں میں دوپٹے بانٹ دو۔‘‘