تشریح:
فائدہ:
محدثین نے حدیث کی جو سب سے آسان اور خوبصورت شرح کی وہ ہے کہ جاہلیت میں لوگ ہر آفت اور مصیبت کو گردش لیل و نہار کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ اسی کو دہر (وقت یا زمانہ) کہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وقت ہی ان پر ساری مصیبتیں ڈھاتا ہے اور وہ مہربان ہو جائے تو ان کے خیال کے مطابق نہ صرف مصیبتیں ٹل جاتی ہیں بلکہ ہر طرح کی نعمتیں اور کامیابیاں بھی حاصل ہوتی ہیں یہی دہریت ہے بد قسمتی سے اکثر شعراء اور ادیب اب بھی اسی پیرائے میں بات کرتے ہیں وہ دہر یا زمانے کا نام لے کر درحقیقت اسی کو برا کہہ رہے ہوتے ہیں جو نعمت عطا کرتا ہے یا اسے روکتا ہے یا پھر مصیبت نازل کرتا ہے یا اسے روکتا ہے۔ مصیبتوں اور نعمتوں کا یہ سارا نظام اللہ کا تخلیق کردہ ہے۔ یہ اسی کا فیصلہ ہے کہ کون سے انسانی عمل کا نتیجہ نعمت کی صورت میں ظاہر ہو گا اور کون سے عمل کا آفت یا عذاب کی صورت میں سامنے آئے گا۔ برا بھلا کہنے والے غلطی سے اسے زمانے کی طرف منسوب کرتے ہوئے حقیقت میں اسی کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں جو اس سارے نظام کا خالق ہے اور اسے چلا رہا ہے وہ آفتوں کو جس گردشِ لیل و نہار کی طرف منسوب کر رہے ہیں وہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اسی کے فیصلے اور حکم سے جاری و ساری ہے اور رات اور دن کے دوران میں جو مصیبتیں آتی یا نعمتیں جاصل ہوتی ہیں وہ بھی اللہ ہ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ عمل اور نتیجہ عمل کے اسی اصول کے مطابق ہوتی ہیں جو اللہ نے قائم کیا ہے۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ اسی نے انسانوں کے اعمال کے نتائج مقرر کیے ہیں پھر انسانوں کو ان سے اچھی طرح آگاہ کر دیا ہے اسی کے نظام کے مطابق سب کچھ ہو رہا ہے ان نتائج کو بدل بھی وہی سکتا ہے برے عمل کے نتیجے سے بچا بھی وہی سکتا ہے، اس لیے انہیں ذمہ داری کے احساس سے عاری ہو کر گردشِ لیل و نہار کو برا بھلا کہنے کے بجائے مالک کائنات اللہ عز و جل کی طرف رجوع کرنا، کامیابیوں کے لیے اسی کے بتائے ہوئے راستوں پر اسی کے رسولوں کی رہنمائی کے مطابق چلنا ضروری ہے۔ ’’میں ہی زمانہ ہوں‘‘ کے مفہوم کی ان گنت جہتیں ہیں جو فلاسفہ وغیرہ سب اہل علم و تحقیق کے لیے غور و فکر اور تدبر کی نئی راہیں کھولتیں ہیں۔