قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْفَضَائِلِ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2380.02. حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللهِ، وَأَيَّامُ اللهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ، إِذْ قَالَ: مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا وَأَعْلَمَ مِنِّي، قَالَ: فَأَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ، إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ، أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ، إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ، قَالَ فَقِيلَ لَهُ: تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا، فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَعُمِّيَ عَلَيْهِ، فَانْطَلَقَ وَتَرَكَ فَتَاهُ، فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَاءِ، فَجَعَلَ لَا يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، صَارَ مِثْلَ الْكُوَّةِ، قَالَ فَقَالَ فَتَاهُ: أَلَا أَلْحَقُ نَبِيَّ اللهِ فَأُخْبِرَهُ؟ قَالَ: فَنُسِّيَ، فَلَمَّا تَجَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّى تَجَاوَزَا، قَالَ فَتَذَكَّرَ (قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا. قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا) فَأَرَاهُ مَكَانَ الْحُوتِ، قَالَ: هَا هُنَا وُصِفَ لِي، قَالَ: فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ مُسَجًّى ثَوْبًا، مُسْتَلْقِيًا عَلَى الْقَفَا، أَوْ قَالَ عَلَى حَلَاوَةِ الْقَفَا. قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ قَالَ: وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ، مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى؟ قَالَ: وَمَنْ مُوسَى؟ قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: مَجِيءٌ مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا، شَيْءٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، قَالَ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا، قَالَ: انْتَحَى عَلَيْهَا، قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا؟ قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَى أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْيِ فَقَتَلَهُ، فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، ذَعْرَةً مُنْكَرَةً، قَالَ: (أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا) " فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذَا الْمَكَانِ: " رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْنَا وَعَلَى مُوسَى، لَوْلَا أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَى الْعَجَبَ، وَلَكِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ، {قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي} [الكهف: 76] عُذْرًا وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَى الْعَجَبَ " - قَالَ: وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْنَا وَعَلَى أَخِي كَذَا، رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْنَا - " فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَاسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، قَالَ: لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ، قَالَ: {سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا، أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ} [الكهف: 79] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَإِذَا جَاءَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ، وَأَمَّا الْغُلَامُ فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا، وَكَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ، فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَكَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا (فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا. وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ) " إِلَى آخِرِ الْآيَةِ

مترجم:

2380.02.

حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک دن موسیٰ ؑ اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے (اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں، اس وقت انھوں نے (ایک سوال کے جواب میں) کہا: میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو ان (موسیٰ ) سے بہتر ہے یا (فرمایا:) جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں، (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: ان سے کہا گیا: ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں، وہ آدمی وہیں ہو گا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔ فرمایا: موسیٰ علیہ السلام اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے، یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام) پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر) تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔ پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا، ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔ اس نو جوان نے (اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور) کہا: کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں! فرمایا: پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔ جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا: ہمارا دن کا کھانا لے آؤ، اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا: ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ وہ (اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔ فرمایا: تو اس (جوان) کو یاد آ گیا اور اس نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے (زندہ ہوکر) پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔ انھوں نے فرمایا: ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔ اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔ انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر علیہ السلام اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل (سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا: گدی کے درمیانے حصے کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا: السلام علیکم! (خضر علیہ السلام نے) کہا: وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟ کہا: میں موسیٰ  ہوں، پوچھا، کون موسیٰ؟ کہا: بنی اسرائیل کے موسیٰ، پوچھا: کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح راستے کا جو علم آپ کو دیا گیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں، پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں (خضر علیہ السلام) نے اس میں لمبا سا سوراخ کر دیا۔ کہا: انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کا زور ڈالا (جس سے اس میں درز آگئی) موسیٰ علیہ السلام نے انھیں کہا: آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کر دیں۔ آپ نے عجیب کام کیا۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کر سکیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔ دونوں (پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے، وہ کھیل رہے تھے۔ وہ(خضر علیہ السلام) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کر دیا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت گھبراہٹ کا شکار ہو گئے۔ انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟ اس مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی) عجیب کام دیکھتے، لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہوئی، کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فرمایا:) اگر موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔ (ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: رسول اللہ ﷺ جب انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع  (فرماتے): ’’ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھائی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔ پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھرے اور ان لوگوں سے کھانا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، پھر انھوں نے اس (بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں (خضر علیہ السلام) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت (بھی) لے سکتے تھے۔ انھوں نےکہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت (کا وقت) ہے۔ اور انھوں (موسیٰ علیہ السلام) نے ان کا کپڑا تھام لیا (تاکہ وہ جدا نہ ہو جائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتا دو) کہا: میں ابھی آپ کو ان (کاموں) کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔ جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں (ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔ ’’آیت کے آخر تک‘‘ جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی (کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت (فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔ اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔ اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی (اور اس کے نیچے ان دونوں کاخزانہ دفن تھا۔)‘‘ آیت کے آخرتک۔