قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2382. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «عَبْدٌ خَيَّرَهُ اللهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ زَهْرَةَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ» فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَبَكَى، فَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا، قَالَ فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا بِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ، لَا تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةَ أَبِي بَكْرٍ»

مترجم:

2382.

امام مالک نے ابو نضر سے، انھوں نے عبید بن حنین سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالی نے ایک بندے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں لے لے یا وہ جو اس کے پاس ہے تو  اس نے وہ پسند کیا جو اس (اللہ) کے پاس ہے۔‘‘ اس پر  ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ روئے اور خوب روئے۔ اور کہا کہ ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں (ہمیں ان کے رونے کی وجہ سمجھ نہ آئی) انہوں (ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ) نے کہا: جس کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہﷺتھے اور ہم سب سے زیادہ اس بات کو جاننے والے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
اور  رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’مال (کےتعاون) اور میرا ساتھ دینے کے معاملے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور اگر میں کسی کوخلیل (ہمراز یا دلی دوست) بناتا تو ابوبکر کوخلیل بناتا، لیکن (ہم دونوں کے درمیان اسلام کی اخوت۔ مسجد کی طرف کسی طرف (کھلنے والی) کسی کھڑکی کوباقی نہ رہنے دینا، سوائے ابو بکر کے گھر) کی کھڑکی  کے (اسے بند نہ کیا جائے۔)‘‘