قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَاب مِنْ فَضَائِلِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2403.02. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ، فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: خَرَجَ، وَجَّهَ هَاهُنَا، قَالَ فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ، حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ، قَالَ: فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ، حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأَ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» قَالَ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ: لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَهُ فِي الْقُفِّ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللهُ بِفُلَانٍ - يُرِيدُ أَخَاهُ - خَيْرًا يَأْتِ بِهِ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» فَجِئْتُ عُمَرَ فَقُلْتُ: أَذِنَ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِالْجَنَّةِ، قَالَ فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ، عَنْ يَسَارِهِ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا - يَعْنِي أَخَاهُ - يَأْتِ بِهِ، فَجَاءَ إِنْسَانٌ فَحَرَّكَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، قَالَ وَجِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، مَعَ بَلْوَى تُصِيبُهُ» قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُكَ، قَالَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ، فَجَلَسَ وِجَاهَهُمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ. قَالَ شَرِيكٌ: فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ

مترجم:

2403.02.

یحییٰ بن حسان نے کہا: ہمیں سلیمان بن بلال نے شریک بن ابی نمر سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی، کہا: مجھے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر آئے اور کہا: میں آج لازماً رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لگ جاؤں گا اور سارا دن ہر صورت میں آپ کے ساتھ رہوں گا، کہا: وہ مسجد میں آئے اور نبی ﷺ کے متعلق پوچھا تولوگوں نے بتایا کہ آپ باہر تشریف لے گئے ہیں، آپ نے اس طرف رخ کیا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں آپ کے پیچھے پیچھے نکل پڑا۔ آپ کے بارے میں پوچھتا گیا یہاں تک کہ آپ بئر اریس (کے احاطے) میں داخل ہو گئے۔ کہا میں دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں کا تھا، آپ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے، پھر وضو فرمایا، میں کھڑا ہو کر آپ کی طرف گیا تو مجھے نظر آیا کہ آپ بئر اریس کے اوپر اس کی منڈیر کے درمیان والے حصے پر بیٹھے ہیں اور پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا کر انہیں کنویں کے اندر (کی طرف) لٹکایا ہوا ہے- کہا: میں نے آپ کو سلام کیا، پھر واپس جا کر دروازے کے قریب (اندر کی طرف) بیٹھ گیا اور (دل میں) کہا: آج میں رسول اللہﷺ کا دربان بنوں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور دروازے کو (کھولنے کے لیے اندر) کودھکیلا، میں نے کہا: کون ہے؟ کہا: ابوبکر ہوں، میں نے کہا: ٹھہر جائیں، پھر میں گیا اور عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! ابو بکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’انہیں اجازت دو اورجنت کی خوش خبری سناؤ۔‘‘ کہا: میں آیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: اندر آ جائیں اور رسول اللہ آپ کو جنت کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اندر آئے اور آپ کے ساتھ منڈیر کے اندر کی طرف آپ کی دائیں طرف بیٹھ گئے۔ اور جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اپنے پاؤں کنویں کے اندر لٹکا لیے اور پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا لیا، میں واپس (اپنی جگہ پر) آ گیا اور بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے بھائی کو گھر پر چھوڑا تھا کہ وضو کر لے اور میرے ساتھ آ ملے۔ میں نے کہا: اگر اللہ تعالی فلاں ۔ ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی۔۔۔ کو خیر عطا کرنا چاہتا ہے تو اسے یہاں لے آئے، پھر اچانک ایک آدمی دروازہ ہلانے لگا۔ میں نے کہا: کون ہے؟ کہا: عمر بن خطاب (ہوں)، میں نے کہا: آپ ٹھہریں، پھر میں رسول اللہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کو سلام کیا اور عرض کی: یہ عمر آئے ہیں، اجازت مانگ رہے ہیں۔ فرمایا: ’’انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت دو۔‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دی ہے اور جنت کی بشارت عطا فرما رہے ہیں۔ وہ بھی رسول اللہ کےساتھ، آپ کی بائیں جانب، منڈیر کے اندر کی طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکالیے۔ میں پھر واپس آیا، بیٹھ گیا اور کہا: اگر اللہ فلاں----- یعنی ان کے بھائی۔۔۔۔ کو خیر عطا کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی لے آئے، پھر کوئی آدمی آیا اور دروازے کو ہلایا، میں نے کہا: کون ہیں؟ کہا عثمان بن عفان۔ میں نے کہا: رک جائیے، کہا: پھر میں رسول اللہ ﷺ پاس آیا اور آپ کوبتایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’انہیں اجازت دو اور ایک آزمائش کے ساتھ جو ان پر آئے گی، جنت کی خوش خبری دے دو۔‘‘ میں آیا، ان سے کہا: اندر آ جائیں رسول اللہ ﷺ آپ کوجنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک آزمائش ہو گی جو آپ پر آئے گی۔ وہ اندر آئے، منڈیر بھری ہوئی پائی تو وہ ان کے سامنے دوسرے آدھے حصے میں بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا، سعید بن  مسیب نے بتایا کہ انہوں نے ان کی قبریں مراد لیں (کہ تین کی ایک ساتھ ہوں گی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی ذرا ہٹ کے ان کے مقابل بقیع میں ہو گی۔)