قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2457.01. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ، مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ قَالَ: فَجَاءَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَاءً، فَأَكَلَ وَشَرِبَ، فَقَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا كَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِكَ، فَوَقَعَ بِهَا، فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ وَأَصَابَ مِنْهَا، قَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ، فَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ، أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبِ ابْنَكَ، قَالَ: فَغَضِبَ، وَقَالَ: تَرَكْتِنِي حَتَّى تَلَطَّخْتُ، ثُمَّ أَخْبَرْتِنِي بِابْنِي فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَارَكَ اللهُ لَكُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا» قَالَ: فَحَمَلَتْ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهِيَ مَعَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَتَى الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ، لَا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا، فَدَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ فَاحْتُبِسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ، وَانْطَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ، يَا رَبِّ إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ إِذَا خَرَجَ، وَأَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَى، قَالَ: تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ: يَا أَبَا طَلْحَةَ مَا أَجِدُ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ، انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، قَالَ وَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمَا، فَوَلَدَتْ غُلَامًا فَقَالَتْ لِي أُمِّي: يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ احْتَمَلْتُهُ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَصَادَفْتُهُ وَمَعَهُ مِيسَمٌ، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: «لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، فَوَضَعَ الْمِيسَمَ، قَالَ: وَجِئْتُ بِهِ فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ، وَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ، فَلَاكَهَا فِي فِيهِ حَتَّى ذَابَتْ، ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِيِّ الصَّبِيِّ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْظُرُوا إِلَى حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ» قَالَ: فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللهِ

مترجم:

2457.01.

بہز نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا، انہوں (حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا) نے اپنے گھر والوں سے کہا: ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس وقت ک ان کے بیٹے (کے انتقال کی) خبر نہ دینا یہاں تک کہ خود ان کو نہ بتا دوں، کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا، پھر حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے ان کے لیے اس سے پہلے جو بہترین سنگھار کیا کرتی تھیں ویسا سنگھار کیا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے ساتھ رات گزاری، جب حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے دیکھا کہ وہ کھانے سے بھی سیر ہو گئے اور ان کے ساتھ بھی وقت گزار لیا تو انہوں نے کہا: ابو طلحہ! یہ بتاؤ کہ اگر کچھ لوگ ایک گھرانے کو ادھاردی جانے والی کوئی چیز ادھار دیں پھر وہ اپنی چیز واپس مانگ لیں تو کیا ان کو حق ہے کہ وہ ان کو منع کریں؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، نہیں۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: تو پھر تم اپنے بیٹے کے بدلے کی اللہ سے امید رکھو۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر غصے میں آ گئے اور کہا تم نے مجھے بے خبر رہنے دیا، یہاں تک کہ میں آلودہ ہو گیا، پھر تم نے مجھے میرے بیٹے کے بارے میں بتایا، پھر وہ چل پڑے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور جو کچھ ہوا تھا بتایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالی تمہیں برکت عطا فرمائے!‘‘ کہا: تو وہ حاملہ ہوگئیں۔ کہا، تو رسول اللہ ﷺ سفر میں تھے، وہ آپ کے ہمراہ تھیں، رسول اللہ ﷺ جب سفر سے مدینہ لوٹتے تو رات کو آ کر مدینہ میں دستک نہیں دیتے تھے۔ سب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو  انہیں دردِ زہ نے آ لیا۔ ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ان کے پاس رکنا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ (انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: (اس وقت) ابو طلحہ کہہ رہے تھے، میرے پرودگار! مجھے یہی اچھا لگتا ہے میں بھی تیرے رسول کے ساتھ باہر نکلوں جب آپﷺ مدینہ سے باہر نکلیں، اور جب آپ (مدینہ کے) اندر آئیں تو میں بھی آپ کے ساتھ اندر آؤں، (لیکن) میں اس بات کی وجہ سے روک دیا گیا ہوں جو تو دیکھ رہا ہے کہا: تو ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں: ابو طلحہ! جو (درد) مجھے محسوس ہو رہا تھا اب محسوس نہیں ہو رہا، چلو تو ہم چل پڑے۔ (انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: جب وہ دونوں آ گئے تو ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کو درد شروع ہو گیا، انہوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا، میری ماں نے کہا: اسے کوئی بھی دودھ نہیں پلائے گا یہاں تک کے صبح کو تم اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤ گے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے اسے اٹھا لیا اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، میں نے آپﷺ کو اس حالت میں پایا کہ آپ کے پاس اونٹوں کو نشان  لگانے کا آلہ تھا، (آپﷺ بیت المال کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے) جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ ام سلیم نے بچے کو جنم دیا ہے؟ میں نےکہا، جی ہاں، تو آپﷺ نے نشان لگانے کا آلہ رکھ دیا۔ کہا: میں اسے لے کر آگے بڑھا اور اسے آپ کی گود میں دے دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی عجوہ میں سے  کھجور منگوائی، پھر آپﷺ نے اسے اپنے دہن مبارک میں چبایا، جب وہ گھل گئی تو آپ ﷺ نے اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا- بچے نے اسے چوسنا شروع کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’انصار کی کھجور سے محبت دیکھو۔‘‘ (انس رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: آپ نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔