قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ فَضَائِلِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2490. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «اهْجُوا قُرَيْشًا، فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ» فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ: «اهْجُهُمْ» فَهَجَاهُمْ فَلَمْ يُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ: قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَى هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِهِ ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ فَجَعَلَ يُحَرِّكُهُ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِي فِيهِمْ نَسَبًا، حَتَّى يُلَخِّصَ لَكَ نَسَبِي» فَأَتَاهُ حَسَّانُ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَكَ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْعَجِينِ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِحَسَّانَ: «إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ، مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُولِهِ»، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَى وَاشْتَفَى» قَالَ حَسَّانُ: [البحر الوافر] هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ ... وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيفًا ... رَسُولَ اللهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي ... لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ ثَكِلْتُ بُنَيَّتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا ... تُثِيرُ النَّقْعَ مِنْ كَنَفَيْ كَدَاءِ يُبَارِينَ الْأَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ ... عَلَى أَكْتَافِهَا الْأَسَلُ الظِّمَاءُ تَظَلُّ جِيَادُنَا مُتَمَطِّرَاتٍ ... تُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ فَإِنْ أَعْرَضْتُمُو عَنَّا اعْتَمَرْنَا ... وَكَانَ الْفَتْحُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ وَإِلَّا فَاصْبِرُوا لِضِرَابِ يَوْمٍ ... يُعِزُّ اللهُ فِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَقَالَ اللهُ: قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا ... يَقُولُ الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ وَقَالَ اللهُ: قَدْ يَسَّرْتُ جُنْدًا ... هُمُ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُهَا اللِّقَاءُ لَنَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ ... سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ فَمَنْ يَهْجُو رَسُولَ اللهِ مِنْكُمْ ... وَيَمْدَحُهُ وَيَنْصُرُهُ سَوَاءُ وَجِبْرِيلٌ رَسُولُ اللهِ فِينَا ... وَرُوحُ الْقُدُسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ

مترجم:

2490.

ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے حضرت (عبداللہ) ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پیغام بھیجا ’’تم (کفار) قریش کی ہجو کرو۔‘‘ انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی جو آپ ﷺ کواچھی نہ لگی۔ پھر آپﷺ  نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پیغام بھیجا۔ اس کے بعد حضرت حسان بن ثابت کی طرف پیغام بھیجا۔ جب حضرت حسان آپ ﷺ کے پاس آئے توعرض کی: اب وقت آ گیا ہے،  آپ ﷺ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے پھر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں ان کو اپنی زبان سے اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو چیرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جلدی نہ کرو، کیونکہ قریش کے نسب کو ابو بکر سب سے زیادہ جانتے ہیں اور میرا نسب بھی انھی میں ہے (اس وقت تک ہجو نہ کرو) یہاں تک ابوبکر میرا نسب ان سے الگ نہ کردیں۔‘‘ حضرت حسان حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، پھر  لوٹ آئے اور کہا اللہ کے رسول! انہوں نے آپ ﷺ کا نسب الگ کردیا ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق دے کربھیجا ہے! میں آپ ﷺ کو ان کے اندر سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال سے نکال لیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ‬ رضی اللہ تعالی عنہا ک‬ہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت  حسان سے یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس وقت تک تم اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے جواب دیتے رہو گے روح القدس مسلسل تمہاری تائید کرتے رہیں گے۔‘‘
اور (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ بھی) فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: حسان نے ان (مشرکین قریش) کی ہجو کی تو شفا دی (نفرت اور بغض کے جس ہیجان میں وہ مبتلا تھے اس کا علاج کیا) اور شفا حاصل کی (کفار کی بد زبانی سے مسلمانوں کو جو تکلیف ہوئی تھی اس کا ازالہ کر دیا) حضرت حسان نے کہا:
تو نے محمد ﷺ کی ہجو کی تو میں نے ان کی طرف سے جواب دیا اور اس کا انعام اللہ ہی کے پاس ہے۔
تونے محمد کی ہجوکی جو ہر ایک سے نیکی کرنے والے، ہربرائی سے بچنے والے، اللہ کے رسول ہیں، ان کی سرشت ہی وفا کرنا ہے۔
میرا باپ، میری ماں اور میری عزت (اس) محمد ﷺ کی عزت پر قربان، جو تم میں سے ہیں (اور تم اس عظمت کومٹی میں رول رہے ہو۔)
میں اپنی بیٹی کی موت پر روؤں اگر تم ہمارے گھوڑوں کو (بالائی مکہ کے) مقام کداء کی دونوں جانبوں سے (حملے کے لیے آتے ہوئے) مٹی اڑاتے ہوئے نہ دیکھو۔
وہ گھوڑے جو چڑھائی کرتے ہوئے لگاموں سے کھینچا تانی کرتے ہیں (اور زیادہ تیزی سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں) ان کے کندھوں پر وہ نیزے رکھے ہوئے ہیں جو (رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے) خون کے پیاسے ہیں۔
ہمارے اعلی نسل کے گھوڑے (تیزرفتاری کی بنا پر) پسینہ بہاتے ہوئے آئیں گے (تم بھاگ چکے ہوگے اور) عورتیں اپنی اوڑھنیاں ان کے منہ پرماریں گی (اور ان کو روکنے کی کوشش کریں گی) تم اگر ہم سے منہ پھیر لوگے توہم عمرہ کریں گے، فتح حاصل ہوجائے گی اور (باطل کا) پردہ چاک ہوجائے گا۔
نہیں تو پھر ایسے دن کی شمشیر زنی کے لیے صبر کرو جس میں اللہ تعالی اس (فریق) کو عزت عطا کرے گا جسے وہ عزت مند منانا چاہتا ہے۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا: میں نے (اپنے رسول کے لیے) ایک لشکر مہیا کیا ہے، وہ (اس کے) انصار ہیں، ان کا ہدف ہی دشمنوں کا سامنا کرنا ہے۔
(اس کی وجہ یہ ہے کہ) معد (بن عدنان) والوں کی طرف سے ہمارے لیے گالی ہے یا جنگ ہے یا ہجو  ہے۔
لہذا تم میں سے جو شخص رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرے یا مدح کرے یا آپ ﷺ کی مدد کرے سب برابر ہے۔
اور (روح القدس)  جبریل کو اللہ کی طرف سے ہم میں بھیجا گیا ہے اور روح القدس کا (کائنات میں) کوئی مد مقابل نہیں۔