قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَهْلِ بَدْرٍؓ وَقِصَّةِ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2494. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ - وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا - سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، وَهُوَ كَاتِبُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَهُوَ يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ: «ائْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا» فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَرْأَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟» قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ - قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ حَلِيفًا لَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا - وَكَانَ مِمَّنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَلَمْ أَفْعَلْهُ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ» فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي، يَا رَسُولَ اللهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ " فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ، ذِكْرُ الْآيَةِ، وَجَعَلَهَا إِسْحَاقُ، فِي رِوَايَتِهِ مِنْ تِلَاوَةِ سُفْيَانَ

مترجم:

2494.

ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ عمرو کے ہیں۔ اسحاق نے کہا: ہمیں خبر دی، دوسروں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حسن بن محمد سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب تھے، خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کیا اور فرمایا: ’’خاخ کے باغ میں جاؤ وہاں اونٹ پر سفر کرنے والی ایک عورت ہوگی، اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو۔‘‘ ہم لوگ روانہ ہوئے، ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر تیز دوڑ رہے تھے تو اچانک ہمیں وہ عورت نظر آ گئی۔ ہم نے اس سے کہا: خط نکالو۔ وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: یا تو تم خود خط نکالو گی یا تمہارے کپڑے اتار دئیے جائیں گے، تو اس نے اپنی بندھی ہوئی مینڈھیوں کے اندر سے خط نکال کر دے دیا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس میں یہ تھا: (وہ خط) حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے کچھ مشرکین کے نام تھا، وہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے ایک معاملے (فتح مکہ کے لیے روانگی کے ارادے) کی خبر لے دے رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حاطب! یہ کیا ( معاملہ) ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے خلاف فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں، میں (کسی اور قبیلے سے آ کر) قریش کےکے ساتھ منسلک ہونے والا شخص تھا۔۔ سفیان (بن عیینہ) نے کہا: وہ (حاطب) ان کے حلیف تھے، ان کے اپنوں میں سے نہیں تھے۔۔ آپ کے ساتھ جو  مہاجرین ہیں، ان کی قرابت داریاں ہیں جن کے ذریعے سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) اپنے لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں- میں چاہا کہ جب میں ان کا ہم نسب ہونے سے محروم ہوں تو میں ان پر کوئی احسان کر دوں جس کی بنا پر وہ میرے رشتہ داروں کی حمایت و حفاظت کریں۔ یہ کام میں نے کفر کی بنا پر یا اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے نہیں کیا، نہ اسلام کے بعد کفر پر راضی ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے سچ کہا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے چھوڑیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ توآپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ بدر میں شریک ہوا تھا، تمہیں کیا پتہ کہ شاید اللہ نے اوپر سے اہل بدر کی طرف نظر فرمائی اور کہا: (اب) تم جو عمل چاہو، کرو۔ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔‘‘ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔‘‘