قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2501. حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَلَا يُقَاعِدُونَهُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا نَبِيَّ اللهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ، قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ، أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ، أُزَوِّجُكَهَا، قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ، قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ، كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَلَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا قَالَ: «نَعَمْ»

مترجم:

2501.

عکرمہ نے کہا: ہمیں ابو زمیل نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: مسلمان نہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات کرتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے تھے۔ اس پر انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: اللہ کے نبی ﷺ! آپ مجھے تین چیزیں عطا فرما دیجیے ۔(تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرما لیجیے۔) آپﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ کہا میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ کہا: اور معاویہ (میرا بیٹا) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کاتب بنا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔" پھر کہا: آپ مجھے کسی دستے کا امیر (بھی ) مقرر فرمائیں تا کہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا اسی طرح کافروں کے خلاف بھی جنگ کروں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ ابو زمیل نے کہا: اگر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کیا ہوتا تو آپ (از خود) انھیں یہ سب کچھ عطا نہ فرماتے کیونکہ آپ سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگی جاتی تھی مگر آپ (اس کے جواب میں) ’’ہاں‘‘ کہتے تھے۔