قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2503.01. قَالَ فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ؟ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ، وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ يَا عُمَرُ كَلَّا، وَاللهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِي دَارِ، أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِي الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللهِ وَفِي رَسُولِهِ، وَايْمُ اللهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَوَاللهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ، وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ، أَهْلَ السَّفِينَةِ، هِجْرَتَانِ» قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا، يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي

مترجم:

2503.01.

کہا: (تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی) اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئیں۔ یہ بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں۔  حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا ک‬ے پاس آئے اور اسماء بنت عمیس‬ رضی اللہ تعالی عنہا ا‬ن کے پاس موجود تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا تو کہا: یہ کون (عورت) ہیں؟ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا ن‬ے کہا یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: یہ حبشہ والی ہیں؟ یہ سمندر والی ہیں؟ حضرت اسماء نے جواب دیا: ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے: ہم (مدینہ کی طرف) ہجرت میں تم لوگوں سے سبقت لے گئے۔ اس لیے ہمارا رسول اللہ ﷺ پر تمہاری نسبت زیادہ حق ہے اس پروہ غصے میں آ گئیں اور ایک (سخت) جملہ کہہ دیا: عمر! آپ نے جھوٹی بات کہی، ہرگز ایسا نہیں، اللہ کی قسم! تم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ وہ تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے تھے اور نہ جاننے والے کو نصیحت فرماتے تھے جبکہ ہم حبشہ میں دور کے ناپسندیدہ لوگوں کے وطن میں تھے اوریہ سب اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تھا۔ اللہ کی قسم! میں نہ کوئی چیز کھاؤں گی او نہ پیوں گی یہاں تم کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے میں وہ رسول اللہ کو بتاؤں گی۔ ہمیں (عام لوگوں کی طرف سے) وہاں ایذا پہنچائی جاتی تھی، ہم  خوف میں مبتلا رہتے تھے۔ یہ سب باتیں میں رسول اللہ ﷺ کو بتاؤں گی اور آپ سے پوچھوں گی۔ (کہ درست بات کیا ہے) اور اللہ کی قسم! نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ ہیر پھیر کروں گی اور نہ بات میں کوئی اضافہ کروں گی۔ (ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: جب رسول اللہ ﷺ تو انہوں ( بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا) نے عرض کی: اللہ کے رسول! حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ مجھ پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے (جو انہوں نے مدینہ کی طرف کی) اور تم کشتی والوں کی دو ہجرتیں ہیں (ایک حبشہ کی طرف اور دوسری ان لوگوں کی کرح مدینہ کی طرف۔) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابوموسی رضی اللہ تعالی عنہ اور کشتی والے جوق درجوق میرے پاس آتے تھے اور اس حدیث کے لیے پوچھتے تھے۔ دنیا کی کوئی چیز اس بات سے، جو رسول اللہ نے ان کے لیے کہا تھی۔ ان کے لیے زیادہ خوشی کا باعث اور ان کے دلوں میں زیادہ عظمت رکھنے والی نہ تھی۔ ابو بردہ نےکہا: حضرت اسماء (بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا: میں ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا دو بار بار مجھ سے یہ حدیث سنتے تھے۔